Uncategorized
Leave a Comment

سوال سے سوال تک!!!


 انعم شبیر

کسی ملک کے بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ ملک کی ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات کیے جانے چاہییں اور یہ کہ کر کہ؛ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمہیں جو بھی اقدام اٹھانے پڑیں اسکے لیے تمہیں میری مکمل پشت پناہی حاصل ہوگی سارا معاملہ وزیر کے ہاتھوں سونپ کر دوسرے مملکتی امور میں مصروف ہو گیا۔کچھ سال گزر جانے کے بعد جب بادشاہ نے ملک کو ترقی کرتے دیکھا تو وزیر سے اس کی وجہ پوچھی تو وزیر نے جواب دیا کہ اس ترقی کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔بادشاہ وزیر کی اس کاوش پر بہت خوش ہوا۔تو حاصل یہ کہ ۔۔۔۔۔

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان کے تعلیمی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچنے بیٹھو تو   ایک ہزار سوال دماغ میں جنم لیتے ہیں۔اور انھیں کاغذ پہ اتارنے بیٹھو تو کتنے ہی کاغذکم پڑ سکتے ہیں۔اور اگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی کوششوں پر نظر ثانی کی جائے تو احساس ہوتا ہے کاا   ٓزادی کے اتنے سال بعد بھی ایسی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی کہ جس سے پاکستان کی تعلیمی ترقی کی راہیں نکلتی نظر ٓتی ہوں۔اور پاکستان کی عوام کا حل دیکھیں ،ہر وقت یہی کہتی نظر ٓاتی ہے   کہ حکومت پاکستان کی ترقی کے لیے کچھ کرتی ہی نہیں۔۔۔تو بھئی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنی ترقی اور بہتری کے لیے کس حد تک کوشش کر رہےہیں؟

پاکستان میں تین طرھ کے طبقات موجود ہیں ۔ایک ہے غریب لوگوں کا طبقہ اوران لوگوں کی یہ حالت ہے کہ غربت سے تنگ ا ٓکر بچوں کو سکول چھڑوا انھیں محنت مزدوری میں لگا دیتے ہیں اور اگر ایسے وقت میں کوئی انسان انکی فلاح کے لیے انھیں چوبیس میں تین گھنٹے مفت تعلیم دلوانے کی کوشش کرتا ہے تو   یہ لوگ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے فائدہ ان کا نہیں کسی اور کا ہو رہا ہو اور وہ تو بلکل جیسے خسارے میں ہوں۔

دوسرا طبقہ جسےا ٓج کل ایلیٹ کلاس کا نام دیا جاتا ہے۔یعنی جاگیرداروں اور زمینداروں کا طبقہ ان کے بچے یا تو بلکل تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں اور پیسے کے بل بوتے پر جعلی ڈگریاں بنوا کر اپنے علاقوں سے امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں اور انھیں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں   جو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ممالک ڈگریاں حاصل کرنے بھیج دیتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اونچی سوسائٹی میں موو کرنے کے لیے یہ بات بہت ضروری   ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی ڈگریوں پر غیر ملکی یونیورسٹیوں کی چھاپ لگی ہونی چاہئے ۔

تیسرا طبقہ جسے متوسط یا سفید پوش طبقے کا نام دیا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے تمام تر سرمایہ کاری تعلیم پر کرتے ہیں مگر انھیں لوگوں کے بچوں کو   تعلیم حاصل کرنے میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے تیسے بنیادی و ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب اعلی تعلیم حاصل کرنے کی باری ا ٓتی ہے تو یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسوں اور خرچوں کا سوچ کر ہی لوگ بس بہت ہو گئی پڑھائی کا کہہ کر اپنے بچوں کو گھر بٹھا دیتے ہیں۔اور لڑکے   تو خود بھی پارٹ ٹائم نوکریاں کر کے اپنے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں ۔مگر لڑکیوں کو صحیح معنوں میں تعلیمی رکاوٹ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔اور اگر انھیں بچوں میں سے کوئی میرٹ پر کامیابی حاصل کر لے تو معاشی ترقی کی راہوں میں سفارش اور نا انصافی رکاوٹ بن کے کھڑی ہوتی ہے۔ اور پھر انھی بچوں میں سے جانے کتنے بچے غربت افلاس اور نا انصافی سے تنگ ٓاکر دہشت گردی اور دیگر منفی سر گرمیوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور معصوم جانیں لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار دہشت گردوں کی سیکورٹی کے انتظامات پر سالانہ ۳۳ کروڑ سالانہ لاگت ا ٓتی ہے حکومت پاکستان   اگر یہی ۳۳ کروڑ تعلیمی میدان میں اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے تو شاید پاکستانی بچے دہشتگرد بننے سے بچ جائیں۔

مگر سمجھ نہیں ا ٓتی ان تمام مسائل کو حل کون کرے گا پاکستانی حکومت عوام یا بھر کوئی اور؟ اس سوال کا جواب نہ تو ٓاپکے پاس ہے نہ ہی میرے پاس ۔۔۔اور یہ کہانی ایک سوال سے شروع ہو کر سوال پہ ٓاکے ہی اختتام پذیر ہوتی ہے۔

This entry was posted in: Uncategorized

by

Vision 21 is Pakistan based non-profit, non- party Socio-Political organisation. We work through research and advocacy for developing and improving Human Capital, by focusing on Poverty and Misery Alleviation, Rights Awareness, Human Dignity, Women empowerment and Justice as a right and obligation. We act to promote and actively seek Human well-being and happiness by working side by side with the deprived and have-nots.

Leave a comment