Month: January 2018

یہ دودھ نہیں ہے

جسٹس میاں ثاقب نثار ایک متحرک چیف جسٹس ثابت ہوئے ہیں جو عدالتی نظام کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ عوامی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کیلئے سر گرم ہیں۔ہفتے کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ڈبے میں مضر صحت دودھ فروخت کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران کراچی اور حیدر آباد میں فروخت ہونے والے ڈبے کے دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ۔ جس کا دو ہفتے قبل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا تھا۔پیش کی گئی رپورٹ میں چار کمپنیوں کے دودھ میں کیمیکل استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا۔اس رپورٹ کی روشنی میں اِن چار کمپنیوں کے ڈبے کے دودھ پر فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ ایک کمپنی پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔بنچ نے ٹی وائٹنر بنانے والی کمپنیوں کو ڈبے پر ’’یہ …

سوال در سوال

یہ ہمارا قومی رویہ اور مزاج ہے یا گورننس کا پرابلم کہ جب تک میڈیا کسی سنگدلانہ اور ظالمانہ واقعے کو نہ اٹھائے ہماری حکومتیں تساہل سے کام لیتی اور’’مٹی پائو‘‘ حکمت عملی اپنائے رکھتی ہیں۔ جب تک آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ پیش نہ آیا ہمارے حکمران یہ فیصلہ ہی نہ کرسکے کہ دہشت گردوں کے خلاف جہادی کارروائی کرنی بھی ہے یا نہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کا خون بہا تو ساری قوم آنسوئوں میںڈوب گئی۔ میڈیا نے اس سانحہ کو قوم تک پہنچایا تو ہمارے حکمران ایک دم بیدار ہوئے حالانکہ اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات ملک بھر میں تواتر سے ہوں رہے تھے۔ یہی رویہ قصور میں بھی دیکھا گیا۔ بلاشبہ میاں شہباز شریف متحرک وزیر اعلیٰ ہیں اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں پھر انہیں اس خدمت کو پبلسٹی کے پہاڑ پر بٹھانا بھی آتا ہے اور اس سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں بہرحال اپوزیشن لیڈر کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ قصور کے ڈھائی سو بچے …

ڈھیٹ ایلیٹ

انسانی معاشرہ اشرافیہ یعنی ایلیٹ کے بغیر ممکن ہی نہیں اور بنیادی طور پر یہ ایلیٹ ہی معاشرہ کا رخ، سمت، رفتار، ترجیحات وغیرہ کا تعین کرتی ہے۔ یہ ایلیٹ جتنی اچھی اور بے غرض ہو گی بلکہ یوں کہنا چاہئے جتنی کم خود غرض ہوگی، معاشرہ اتنا ہی کامیاب۔ دوسرے لفظوں میں ایلیٹ بھی جمہوریت کی طرح ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہے یعنی ایلیٹ تو ہونی ہی ہونی ہے لیکن جتنی ’’ڈھیٹ ایلیٹ‘‘ ہم پر مسلط ہے۔ ایسی شاید ہی کسی اور معاشرہ کی گردن پر سوار ہو کہ یہ تو ڈھٹائی، بے حیائی کے شاہکار ہیں اور وجہ ہے ہماری اس ایلیٹ کا خصوصی بیک گرائونڈ کہ اس کا ایک حصہ برطانوی سامراج کی پیداوار ہے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد منظر عام پر ابھرا، دوسرا حصہ 1947ء کی آزادی کے بعد جعلی کلیموں اور دوسری بیشمار وارداتوں کے نتیجہ میں سامنے آیا اور کیچوے سے سانپ، سانپ سے اژدھے میں تبدیل ہو کر اس نے اقتصادیات سے لیکر اقدار تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بذریعہ سیاسی اقتدار۔70 سال بعد …

چھوٹی بچیوں پر تو رحم کرو؟؟

قصور سانحہ کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک وڈیو سامنے آئی جس میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے بڑے بے ہودہ انداز میں ایک ٹی وی چینل کے شو میں ڈانس کروایا گیا۔ یہ بے ہودگی اور چھوٹی بچیوں کی معصومیت سے کھیلنا اس قدر گری ہوئی حرکت تھی کہ اس پر مغربی میڈیا تک نے بھی اعتراض کیا لیکن نہ تو اس پر پیمرا نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی اس پر میڈیا کی طرف سے کوئی خاص اعتراض اٹھایا گیا۔ میں نے جب اس وڈیو کو دیکھا تو دکھ ہوا کہ اپنی ریٹنگز کے لیے کوئی اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے لیے پہلے ہی عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے اب معاملہ چھوٹی بچیوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ایسے پروگرامز پر تو متعلقہ ٹی وی چینل کے ساتھ ساتھ اینکر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور کم از کم ایسے پروگرامز اور اینکرز پر پابندی تو ضرور عائد کرنی چاہیے لیکن یہاں ایسی کوئی روایت ہم قائم ہی نہیں ہونے دینا …

ہر بار راہبر نے نئی واردات کی

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مختلف اوقات میں بننے والے قومی اتحادوں نے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملکی مفاد پہ اکٹھے ہونے والوں کا ایجنڈا ہمیشہ کسی نظام کو لپیٹنا رہا۔ بھٹو جیسے عالمی سطح کے وژنری رہنما کو بھی اسی طرح کے اتحاد نے پاکستان کی تقدیر سے جدا کر کے خود کشی کی روایت کو جنم دیا۔ اتنے سالوں میں حکمت عملی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف ہر طرح کی اخلاقی اور جمہوری قدریں پسِ پشت ڈال دی گئی ہیں۔ آج اسی بھٹو کا داماد اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سربراہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ نہ جانے کیوں عمران خان اور زرداری کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب اوپر سے بننے والے اتحاد عوام کی سطح پر مسترد کر دیئے جاتے ہیں۔ طاہر القادری صاحب تو اپنے کامیاب ترین دورے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے مگر یہ دونوں پارٹیاں عوام کو کیا منہ دکھائیں گی۔ اب لوگ اتنے بے خبر نہیں رہے کہ انہیں قول و فعل کے …

پہلا پتھر وہ مارے

قوموں کی زندگی میں ستر سال کم نہیں ہوتے ۔ ایک پوری نسل پل بڑھ کر شعور کی طرف بڑھ چکی ہوتی ہے مگر ہم آج بھی ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی مانند کیوں ہیں جسے نظم و ضبط، شائستگی اور تربیت سے سروکار ہی نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک سماجی و سیاسی رہنما نے قوم سازی پر توجہ دی نہ بھیڑ کو قطار بنانے کا سلیقہ سکھایا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی نظامِ تعلیم ہے جس نے صرف مختلف طبقوں کو ہی جنم نہ دیا بلکہ ان کے اندر احساسِ محرومی پیدا کی جس سے جرائم کو شہہ ملی۔ اگر مدارس سرکاری اور انگلش میڈیم کی بجائے ایک نظام تعلیم لاگو کر دیتے تو آج ایسا تعفن زدہ معاشرتی نظام ہماری نیندیں حرام نہ کرتا جہاں ہمیں خود سے نگاہیں ملاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو تی ہے۔ مگر اپنے مفادات کے لئے حکمرانوں نے لوگوں کے ذہنوں میں صرف بھوک کاشت کی، ان کے احساس میں بے یقینی کے بیج بوئے۔ اخلاقی تربیت سے ان کے …

قصور شہرکی بے قصور بیٹی

جلسے اور جلوسوں کے لئے مخصوص فیصل آباد شہر کے ’’دھوبی گھاٹ گرائونڈ‘‘ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو تحریک پاکستان کے زمانے میں لاہور کے موچی گیٹ کی تھی۔جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ایک دِن اعلان ہوا کہ دھوبی گھاٹ گراونڈ میں ایک مجرم کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے گا ،مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل گرائونڈ میں پھانسی گھاٹ بنایا گیا، لوہے کی ٹکٹکی لگائی گئی، پھانسی کے لئے سہ پہر کا وقت مقرر تھا ،لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جمع ہو گیا، عین وقت مقررہ پر ڈسٹرکٹ جیل کی نیلے رنگ والی وین آئی، مجرم کو وین سے اتارکرپھانسی کے چبوترے پر لایا گیا ،یہ منظر دیکھ کر لوگوں پر سناٹا طاری تھا ،مجرم کو تختہ دار پر کھڑا کیا گیا، حکم ہوا اور جلاد نے لبلبہ دبا دیا ،تختے نیچے سے کھل گئے اور لاش پھانسی کے پھندے پر جھول گئی ،چند منٹ بعد ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور موت کی تصدیق کر دی، پھانسی لگنے والے مجرم کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک …

قاتل۔ حاکم وقت

قصور میں ہونے والے دلخراش واقعہ نے قوم کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ننھی زینب پر گزرنے والی قیامت نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے ۔پچھلے کئی روز سے میڈیا لگاتار اس اندوہناک واقعہ کی کوریج کر رہا ہے،” جسٹس فار زینب ” کے نام سے سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی جا رہی ہے ۔معاشرے کے ہر حصہ سے صرف یہی صدا بلند کی جارہی ہے کہ اس گھنائونے فعل کو سرانجام دینے والے شیطان کو اس کے کئے کی سزا دی جائے۔ غم و غصے کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ مجرم کی سر عام پھانسی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یقیناََ اس کیس کو ملنے والی کوریج سے معصوم زینب کے لواحقین کو کم از کم یہ حوصلہ تو ضرور ہوا ہے کہ ا ن کی معصوم بیٹی کا قاتل شاید اپنے انجام کو پہنچ ہی جائے لیکن دوسری طرف جو بات ایک بار پھر سے کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستان کے ریاستی نظام کا بوسیدہ پن ہے۔ زینب کا اغوا …

انکل شہباز کے نام ننھی زینب کا خط

انکل شہباز !میں بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ کے استاد خواجہ غلام محی الدین کے قبرستان قصور سے خط لکھ رہی ہوں، 5دن کی شدید تھکاوٹ اور ظلم کی چکی میں پس کر پرسکون جگہ پہنچی ہوں جہاں خواجہ صاحب کے علاوہ سینکڑوں حفاظ کرام مدفون ہیں۔ انکل میں زینب بنت محمد امین ناظم تبلیغ تحریک منہاج القرآن قصورا سکول ٹیچر کی بیٹی ہوں۔ مجھے 7سال کی زندگی میں ہی کیوں نشانہ بنایا گیا، بلھے شاہ کہہ رہے تھے آج 21کروڑ عوام کی غیرت کا جنازہ دیکھ کر بیٹا میرا دل کہہ رہا ہے کہ آخر میں بھی مر جائوں۔ انکل ظالموں کے ظلم کی وجہ سے تھک گئی ہوں، انکل اس شمر کو نہ چھوڑنا جس نے میرا پھول سا چہرہ مسلا ہے، انکل اب کی بار انصاف پھر اندھا، قانون بہرہ اور قوم کی طرح حسب سابق آپ بھی رسمی آہوں دعائوں، روایتی بیان بازیوں میں نہ رہنا۔ انکل صرف معطلیاں، تبدیلیاں، کمیٹیاں، تحقیقاتی رپورٹیں کہیں میری چیخوں، سسکیوں، ہچکیوں اور آہوں کے آگے دیوار نہ بن جائیں، میں تو رحمت بن …

پاک پانی سے ناپاک پروٹوکول تک

سمجھ نہیں آ رہی کہاں سے شروع کروں اور پھر کہاں کہاں سے ہوتا ہوا شکریہ ادا کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک پہنچوں جو اصل مسائل کی طرف پوری یکسوئی سے متوجہ ہیں۔ عدلیہ! شکریہہلکے سُروں آغاز کروں تو سریلی ترین خبر یہ ہے کہ چکوال آمد پر نااہل شریف کا استقبال جعلی نوٹوں سے کیا گیا جس کی علامتی حیثیت کا جواب نہیں کہ جیسی جمہوریت ویسے نوٹ، جیسا لیڈر ویسے ووٹر۔ دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ جب ’’قدم بڑھائو نواز شریف‘‘ کرائوڈ انتہائی جوش و خروش سے عظیم قائد بلکہ قائد اعظم ثانی پر تھوک کے حساب سے جعلی نوٹ نچھاور کر رہا تھا، بیچارے میاں صاحب اصل سنجیدگی کے ساتھ انہیں اس ’’اظہار عقیدت‘‘ سے روک رہے تھے۔ حیرت ہے کہ میاں صاحب بھی اصلی اور نقلی نوٹوں میں تمیز نہ کر سکے لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ عرصۂ دراز سے روپوں نہیں ڈالروں، پائونڈوں، ریالوں اور درہموں وغیرہ میں ڈیل کر رہے ہیں ورنہ پاکستانی روپیہ اس طرح رسوا اور ٹکے ٹوکری …

وقت سے پہلے مرتے پاکستانی

ال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدرت جس بھی آفت کی نمائش کرنا چاہتی ہے اس کے لیے پاکستان جیسے اسلامی ملک کا انتخاب ہی کیوں کرتی ہے؟؟؟ چاہے زلزلوں کے نقصانات ہوں، یا سیلاب کی تباہ کاریاں یا کچھ اور… پاکستان ہی کیوں…؟؟؟آپ اخبار یا ٹی وی پر تقریباً ہر روز کسی ایسے بچے کی تصویر دیکھتے ہوں گے جس کے دو دھڑ ہیں، چار بازو ہیں ، دو، سَر ہیں یا جڑواں بچوں کے وجود آپس میں جُڑے ہوئے ہیں… ایک ایسا ملک جہاں صبح سے شام تک اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے موبائل SMS پر درود پاک کی chainچلائی جاتی ہے اور کروڑوں اربوں کی تعداد میں 17 کروڑ سے زائد مسلمان پانچ وقت باری تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں ایک محلے میں کئی کئی مسجدیں ہیں اور الحمداللہ سب کی سب شاد آباد… جن سے دن رات میں کسی بھی وقت والیم فل کر کے خلق خدا کو باری تعالیٰ کی یاد دلائی جاتی رہتی ہے سیدھی سی بات ہے ایک مسلمان ملک میں کس کی جرأت ہے کہ …