غربت کس طرح تعلیم کا دروازہ بندکرتی ہے
آنکھیں صاف بتا رہی تھی کچھ کر کے دیکھاناہے چہرے پر مسکراہٹ کو زبردستی سجاٰٰ ۓ رکھنا مشکلات کے سمندر کو پار کرنے کا عزم دل کو اس طرح مجبور کرنا کہ آنسو آفات بھوک افلاس سب یہ بدبخت خون کا لوتھڑا اپنے اندر سمالے معمول کے مطابق آج بھی کلاس کا آغاز 8 بجے ہوا روزانہ کی طرح کلاس میں وہی آوازیں گونج رہی تھی کوئی بچہ اپنے نہ آنے کی وجہ بتا رہا تھا تو کوئی پنسل کاپی ر بڑ نہ ہونے کی داستان سنا رہا تھا اس گہما گہمی کے باوجود آج کلاس کے کونے میں پڑی کرسی اپنی اداسی کو صاف ظاہر کر رہی تھی کرسی بے جان ہونے کے باوجود باربار توجہ اپنی طرف دلا رہی تھی خیر یوں لگا کہ شاہد میرا وہم ہو یا میں سوچ ایسا رہی ہوں انھی خیالات میں گم اچانک مجھے خیال آیا آج وہ آواز وہ مودبانہ لہجہ اور وہ امید بھری آنکھیں کیوں نہں کہہ رہی ٹیچر میرا گھر کام چیک کریں میرا گھر کا ہوم ورک مجھ سے سن لیں خیر …