Month: October 2016

سیاسی جلسے

تحریر:ساحرہ ظفر گاڑی  گاڑی سے ٹکرا رہی ہے۔ٹائر جل رہے ہیں۔دھواں اُٹھ رہا ہے۔پولیس عام لوگوں پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔سڑکیں،محلے ،گلیاں یہاں تک کہ سکول بھی کینٹرز کی نظر ہو گئے ہیں۔ایمولینسز میں مریض دم توڑ  رہے ہیں ۔بچے  بیگ پہنے ہاتھوں میں کتابیں تھامے سوالیہ نظروں سے بند راستوں اور سکولوں کے آگے کھڑی رکاوٹوں کو دیکھ رہے ہیں۔ تاجر برادری کاروبار کو بند کر کے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔رابطے کے ذریعے سیکورٹی خدشات کی بنا پر نا پید ہو چکے ہیں۔ مائیں بچوں کو سکول بھیجنے سے گھبرا رہی ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں گورنمنٹ کی کرپشن اور نااہلی کو ثابت کرنے کے لیے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دے رہی ہیں ۔عمران خان بنی گالہ میں نظر بند مسلسل میڈیا کے  ذریعے عوام کو  وزیراعظم  کی نا اہلی کی وجہ سے گھر بھیجنے کا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف شیخ رشید  بار بار  اپنی لال حویلی کے بچانے کا کہہ رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں اگر مجھ سے لال …

Book Review Tracing elements of power, religion in Muslim rule over India

Daily Observer Zubair Qureshi Islamabad—Quaid-i-Azam University’s lecturer in History Dr Fouzia Farooq Ahmad has done a commendable work of research by writing the book ‘Muslim Rule in India: Power and Religion in the Delhi Sultanate’ that has drawn attention of students of history, critics and researchers not only in the subcontinent but also around the world. The 288-page book under review is an academic work that reflects greatly upon medieval Indian political culture and power relations. The book poses the question of whether the Delhi sultans ever stabilized power of foundations of legitimate authority or did they remain dependent on coercion and patrimonial relations to sustain their rule. To answer that question, the author adopts a rigorous methodology that lays out matrix for organizing historical material drawn from medieval chronicles allowing the reader to make sense of the rapid rise and fall of sultans and their nobility, the expansion and contraction of Delhi’s sway over surrounding and distant regions, and the swings between periods of long rule and interregna of rapid turnover of sultans. The …

Remember Remember, the Second November!!!

Syed Hammad Raza With the month of October coming to an end, the hype about Pakistan Tehreek-e-Insaf’s Protest to be held on 2nd November, is getting bigger and bigger. Instilled with multiple anticipations about what Khan will bring, the dusty air of capital is becoming even foggier. With the slogan of “Aarahahy Khan, kaanprahayhain be-eman” the PTI fans are all set for the protest. However while there is a sudden thrill in capital air on one hand, on the other hand there is a mild concern of Capital residents over closing of important routes and a possible hindrance in daily life activities.

لمحہ شکریہ یا لمحہ فکریہ

سید حماد رضا کل شام جب آفس سے گھر کی جانب روانہ ہوا تو راستے میں ایک معصوم سی گڑیا نظر آئی۔اس کی عمر قریب چھ سال تھی، کاندھے پہ بیگ، چھرے پہ ٹیچر کی جانب سے دیا گیا ستارہ اور ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ اپنے بابا کی انگلی تھامے وہ اچھلتی کودتی اپنے گھر کی جانب روانہ تھی۔ میں رکا، شفقت سے اس کے سر پے ھاتھ پھیرا اوا اپنے جیب میں پڑی واحد ٹافی اس کو پیش کی۔ اجازت بھری نگھا ہوں سے اس نے اپنے والد کی جانب دیکھا، والد کی اجازت کے بعد ہاتھ آگے بڑھایا- میں نے ٹافی اس کے ھاتھ پہ رکھی اور بدلے میں وہ اپنی معصوم سے مسکراھٹ دے کے اپنے والد کے ساتھ آگے روانہ ہو گئ-

تقدیر

  تحریر:ساحرہ ظفر: کاش  دروازہ خود ہی بند ہو جائے۔اب  بار بار نہیں اُٹھنے ہوتا ۔میں ٹی کے آگے بیٹھے مسلسل اس  کشمکش میں مبتلا تھی کہ کوئی ہو جو دروازہ بند کر دے۔خیر اسی سوچ  میں گم نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی تھی۔ ٹی وی لگا اور کُھلا دروازہ میں سب بھول گئی تھی۔صبح اذان کی آواز سے جب میری آنکھ کھُلی تو  عجیب کمرے کا ماحول تھا۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک دم میرے رونگھنٹے کھڑے ہو گئے۔آؤ دیکھا نہ تاؤ باہر کی طرف بھاگی تو سب سو رہے تھے۔میرا گھر سڑک کے قریب ہونے کی وجہ سے  عموما اماں الارم کی طرح مجھے وقتا فوقتا  یہ بات ضرور یاد دلاتی ہوتی تھی کہ کمرے کا دروازہ اچھی طرح بند کر لیا کرو۔خیر اماں کی بات کو کبھی دل و دماغ میں نہیں بٹھایا

بناؤ سنگھار۔

تحریر:ساحرہ ظفر بعض دفعہ ظلم کی انتہا اس قدر ہو جاتی ہے کہ ایک دم کے لیے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا واقعی یہ انسان  ہی انسان بشر کو  بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے؟لیکن انسان کے اندر اللہ نے ایک دل رکھا ہوا ہے جو انسانیت کا درس کسی نہ کسی طور پر ضرور دیتا رہتا ہے ۔اور ضمیر کو اس بات پر ضرور قائل کر لیتا ہے کہ انسان  ہو لہذا انسانیت کو برقرار رکھو۔نیند کا  غلبہ کچھ لمحے کے لیے ضمیر کو سُلا دیتا ہے ۔اور انسان درندہ بن کر  انسانیت کو پامال کر دیتا ہے ۔ تاریخ میں ہمیشہ ایک بات لکھی جا چکی ہے کہ پاکستان وہ واحد مُلک ہے جس کے حکمران تو وہ چالاک آنٹیاں ہیں جو الیکشن والے   دن یا الیکشن کے قریب اپنے آپ کا اس خوبصورتی سے بناؤ سنگھار کرتی ہیں کہ بے مروت اور سوئی ہوئی عوام اُن کو  اپنے سہاگ کے طور پر مُنتخب کر لیتی ہے۔ پھر اس سہاگ کو  5 سال  تک  نہیں بلکہ بار بار جیتنے …

Hussainiyat-A Philosophy of Life

​Al Hussain o Minni Wa Ana Minal Hussain “Hussain is from me and I am from Hussain” [26] Al-Tirmidhi, II, 306. This Hadith of Prophet Muhammad (saw), which is agreed by Sunni and Shia traditions, is etched in the memories of thousands of minds. The prophet said that Hussain was from him that is quite understandable as Hussain (AS) was his grandchild. But why did the Prophet say ‘I am from Hussain (AS)’? We believe that what happened at Karbala provides the answer of this question.Karbala is where Allah’s Deen got its actual meaning revived and forever provided a loud and clear sign and an eternal symbol to direct all posterity towards the true spirit and aim of Islam, by distinguishing between the Haqand batil at the cost of the lives of Prophet’s heirs. Imam Hussain, his family, friends and followers made this possible by their great sacrifice. Karbala is not just another event in the history of Islam. It is what guards against distortion of Islam’s most fundamental purpose and its single most important aim and message.  The real …

گیلی لکڑی

ساحرہ ظفر ایک اُستاد  ایک شہزادے کی تربیت کیا  کرتا تھا ۔ اس کی بہت ہی سخت تربیت کرتا اور دوسرے بچوں کے مُقابلے میں بادشاہ کے بچے کو ہر مُشکل  سے گزارنے کی مکمل کوشش کرتا۔ ایک مرتبہ بیٹے نے نڈھال ہو کر اپنے باپ سے شکایت کی اور اپنے دکھتے جسم  کو اپنے باپ  کے سامنے پیش  کیا اور اپنے باپ کو بتایا کہ اُس کا اُستاد اُس سے بہت محنت مشقت کرواتا ہے۔  اور دُوسرے بچوں کے مقابلے میں اس سے سخت رویہ رکھتا ہے۔ باپ کے دل کو بہت تکلیف ہوئی ۔ اس نے استاد کو بلایا اور کہا ! تم عام رعایا کے بیٹوں سے اس قدر سرزنش اور سخت سلوک روا نہیں رکھتے جس قدر میرے بیٹے سے رکھتے ہو ؛ اس کی کیا وجہ ہے ؟