Month: January 2015

سوال سے سوال تک!!!

 انعم شبیر کسی ملک کے بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ ملک کی ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات کیے جانے چاہییں اور یہ کہ کر کہ؛ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمہیں جو بھی اقدام اٹھانے پڑیں اسکے لیے تمہیں میری مکمل پشت پناہی حاصل ہوگی سارا معاملہ وزیر کے ہاتھوں سونپ کر دوسرے مملکتی امور میں مصروف ہو گیا۔کچھ سال گزر جانے کے بعد جب بادشاہ نے ملک کو ترقی کرتے دیکھا تو وزیر سے اس کی وجہ پوچھی تو وزیر نے جواب دیا کہ اس ترقی کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔بادشاہ وزیر کی اس کاوش پر بہت خوش ہوا۔تو حاصل یہ کہ ۔۔۔۔۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچنے بیٹھو …

نماز اور ہم

زویا شبیر پانچ وقت اپنے جسم کو وضو کے پانی سے پاک کرنا اور خدا کے سامنےسر بسجود ہونا ۔ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں بڑوں سے سنتے ہیں ۔نماز  ہر مسلمان مرد عورت پر فرض کی گئ ہے تاکہ ہم اپنی ذندگی کو دنیا اور آخرت میں آسان بنا سکیں ۔ اسلام کے مطابق نماز  دوزخ کی آگ سے بچاتی ہے اور برے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔لیکن کچھ لوگوں کو نماز  کی حقیقت یا تو پتہ ہی نہیں اور اگر پتہ ہے تو پتہ ہونے کے باوجود وہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں اور عبادت کی آڑ میں کچھ ایسے شرمناک اور ناگوار کام کر جاتے ہیں جس کے بعد کم از کم ان کو خدا کے عبادت  گزار بندے کہنا تو بالکل مناسب نہیں ہے۔آیئے میں آپ کو ایک ایسے آدمی کی عبادت سے متعارف کرواتی ہوں

کیا ہمیں پھر کسی نئےبنگلہ دیش کا انتظار ہے؟

سائرہ ظفر کیا ہمیں پھر کسی نئےبنگلہ دیش کا انتظار ہے؟ اماں تم ہمیشہ ایسا کرتی ہو کونسا کوئی پہلی دفعہ ہوا ہے۔جب دیکھو تجھے نائلہ کی فکر رہتی ہے ۔اماں آج پھر تم نے نائلہ کے لیے نئے کپڑے لائے اور مجھے یہ کہہ کر ٹال رہی ہو تم تو میرے پاس ہی ہوتی ہو پھر کسی دن تمھیں لا دوں گی۔لیکن اماں تم ہمیشہ سے یہی کہتی آئی ہو نائلہ خود گلے شکوے کیے جا رہی تھی لیکن اماں کو بس ساجدہ کی فکر کھائے جا رہی تھی اماں ساجدہ کو ڈھیر ساری دعاوں اور تحائف کے ساتھ رخصت کر رہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی اپنے گھر پہنچ کر مجھے اپنی خیرت کی اطلاع دے دینا ساتھ ساتھ نائلہ کو اشاروں اشاروں میں کہہ رہی تھی اپنی بہن کو خدا حافظ کرتی جاو لیکن نائلہ کو تو صرف اماں کی ناانصافی نظر آرہی تھی نائلہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی آخر اماں ساجدہ کو مجھ پر فو قیت کیوں دیتی ہے؟ یہی سوچ نائلہ کو احساس کمتری …

غربت کس طرح تعلیم کا دروازہ بندکرتی ہے

آنکھیں صاف بتا رہی تھی کچھ کر کے دیکھاناہے چہرے پر مسکراہٹ کو زبردستی سجاٰٰ ۓ رکھنا مشکلات کے سمندر کو پار کرنے کا عزم دل کو اس طرح مجبور کرنا کہ آنسو آفات بھوک افلاس سب یہ بدبخت خون کا لوتھڑا اپنے اندر سمالے معمول کے مطابق آج بھی کلاس کا آغاز 8 بجے ہوا روزانہ کی طرح کلاس میں وہی آوازیں گونج رہی تھی کوئی بچہ اپنے نہ آنے کی وجہ بتا رہا تھا تو کوئی پنسل کاپی ر بڑ نہ ہونے کی داستان سنا رہا تھا اس گہما گہمی کے باوجود آج کلاس کے کونے میں پڑی کرسی اپنی اداسی کو صاف ظاہر کر رہی تھی کرسی بے جان ہونے کے باوجود باربار توجہ اپنی طرف دلا رہی تھی خیر یوں لگا کہ شاہد میرا وہم ہو یا میں سوچ ایسا رہی ہوں انھی خیالات میں گم اچانک مجھے خیال آیا آج وہ آواز وہ مودبانہ لہجہ اور وہ امید بھری آنکھیں کیوں نہں کہہ رہی ٹیچر میرا گھر کام چیک کریں میرا گھر کا ہوم ورک مجھ سے سن لیں خیر …

اس قوم کی حالت کون بدلے گا؟؟؟

انعم شبیر میں نے کہیں پڑھا تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہے۔ لیکن بے چاری پاکستانی عوام کو دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا!!! پچھلے سڑسٹھ سالوں سے ایک ٓزاد ملک کی عوام ہونے کے باوجود ابھی تک غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔کیوں؟؟؟