محاورے اور معاشرے
حسن نثار محاورے، ضرب الامثال صدیوں پر محیط انسانی تجربات کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر ہوتے ہیں اور کمال یہ کہ زبان اور اندازِ بیان جتنا بھی مختلف ہو، بات ایک سی ہی ہوتی ہے یعنی محاوروں اور ضرب الامثال میں گہری مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر انسانی فطرت ہی ایک سی ہوتی ہے۔ وہی محبت، وہی نفرت، ایثار، انتقام، غصہ، لالچ، حسد، خوف یعنی مخصوص جبلّتوں کے قیدی انسان۔ قدیم عرب کہا کرتے تھے ’’اَلمثَلُ فِی الْکلَامِ کا لملح فِی الطَّعَامِ‘‘ یعنی ضرب المثل کی کلام میں وہی حیثیت ہے جو طعام میں گوشت کی ہوتی ہے سو آج سیاست سے ذرا بچتے بچتے ضرب الامثال کی روشنی میں معاملات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً’’راج ہٹ، بال ہٹ اور تریاہٹ ٹالے نہیں ٹلتے‘‘مطلب یہ کہ راجہ، بچہ اور عورت کسی بات پر اڑ جائے تو آخری حد تک جاتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ عثمان بزدار پر جزبز ہونے کی بجائے اس وقت کا انتظار کریں جب مچھلی پتھر چاٹ کر واپسی کا فیصلہ کرے …