Month: January 2019

محاورے اور معاشرے

حسن نثار محاورے، ضرب الامثال صدیوں پر محیط انسانی تجربات کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر ہوتے ہیں اور کمال یہ کہ زبان اور اندازِ بیان جتنا بھی مختلف ہو، بات ایک سی ہی ہوتی ہے یعنی محاوروں اور ضرب الامثال میں گہری مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر انسانی فطرت ہی ایک سی ہوتی ہے۔ وہی محبت، وہی نفرت، ایثار، انتقام، غصہ، لالچ، حسد، خوف یعنی مخصوص جبلّتوں کے قیدی انسان۔ قدیم عرب کہا کرتے تھے ’’اَلمثَلُ فِی الْکلَامِ کا لملح فِی الطَّعَامِ‘‘ یعنی ضرب المثل کی کلام میں وہی حیثیت ہے جو طعام میں گوشت کی ہوتی ہے سو آج سیاست سے ذرا بچتے بچتے ضرب الامثال کی روشنی میں معاملات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً’’راج ہٹ، بال ہٹ اور تریاہٹ ٹالے نہیں ٹلتے‘‘مطلب یہ کہ راجہ، بچہ اور عورت کسی بات پر اڑ جائے تو آخری حد تک جاتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ عثمان بزدار پر جزبز ہونے کی بجائے اس وقت کا انتظار کریں جب مچھلی پتھر چاٹ کر واپسی کا فیصلہ کرے …

تھینک یو! پلیز تاریخ سے مت لڑئیے

ڈاکٹر منظوراعجاز جب میرا بیٹا بہت چھوٹا تھا اور میں اس سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تھا تو اس کا مطالبہ ہوتا تھا کہ ـ’’میجک ورڈ‘‘ بولئے تو کام ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ اگر پلیز کہہ کے کام کروائیں گے تو ہو جائے گا وگرنہ نہیں۔ اب وہ بڑا ہو چکا ہے قانون میں پی ایچ ڈی کر چکا ہے لیکن اس کا بچپن کا مطالبہ نہیں بدلا۔ چند ہفتے پیشتر اسی طرح کے کسی معاملے میں اس کے ساتھ تنازع میں بات قطع تعلقی تک پہنچ گئی۔ ہوا یہ کہ اس نے کسی کام کے سلسلے میں میری مدد کی اور اس کا کہنا تھا کہ میں نے اس کا مناسب انداز میں شکریہ ادا نہیں کیا۔ میرا موقف تھا کہ ہر معاملے میں بیٹے کے اس طرح کے مطالبات نا شکرا پن ہے۔ مطلب میں نے اسے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا اور اس کی سوئی اب بھی ’تھینک یوـ ‘ پر اٹکی ہوئی ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ میری تائید کریں گے اور میرے بیٹے کو …

بابا جی فرماتے ہیں!

عطا ء الحق قاسمی فیس بک بھی کمال کی چیز ہے آپ کو اس میں ہر اچھی اور ہر بری چیز وافر مقدار میں مل سکتی ہے۔ مجھے چونکہ طنز و مزاح سے زیادہ شغف ہے۔ چنانچہ میں اس میں سے یہی نایاب ہیرے تلاش کرتا ہوں۔ نایاب اس لئے کہ طنز و مزاح بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ قدرے ترمیم کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ طنز وہ صنف نہیں ہے جسے بچے لکھیں جین پھٹ جاتی ہے صدمات کو سہتے سہتے

پولیو کا خطرہ

ادارتی نوٹ اس سے زیادہ تشویشناک بات اور کیا ہو گی کہ جس مرض پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک بھی قابو پاچکے ہیں پاکستان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کے بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ وزیر اعظم کے معاون برائے انسداد پولیو نے کہا ہے کہ ملک بھر کے 8شہروں کے گندے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں لاہور، کراچی، پشاور، بنوں، راولپنڈی، قلعہ عبداللہ، پشین اور کوئٹہ شامل ہیں۔ حکومت کے مطابق اس موذی مرض سے پاکستان کو پاک کرنے کے لئے اکیس جنوری سے ملک گیر مہم شروع کی جائے گی۔ پولیو ایک متعدی بیماری ہے جو شخص در شخص منتقل ہو سکتی ہے ۔ اعصابی نظام کو کمزور اور مفلوج کرنے والی اس بیماری کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا سوائے اس کے کہ اس سے بچائو کے لئے ویکسین استعمال کی جائے کہ اس بیماری کا وائرس حملہ آور بھی ہو تو بدن کا مضبوط مدافعتی نظام اس کے وار کو ناکام بنا دے۔ 1998ء تک پولیو تقریباً پوری دنیا میں موجود …

بے جان بُت، جاندار بُت

حسن نثار شاید نہیں یقیناً ہم دنیا کی دلچسپ اور عجیب ترین قوم ہیں لیکن اس تبصرہ کی تفصیل بعد میں، پہلے آپ سے یہ خوش کن خبر شیئر کر لوں کہ حکومت حال مست اور سوئی ہوئی نہیں بلکہ پوری طرح الرٹ اور چوکنی ہے جس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا سے آئے ہوئے کسی اکانومسٹ کی عمران خان سے اوپر نیچے دو ملاقاتیں کرائی گئی ہیں اور اس کے لئے موصوف کو خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد لے جایا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خود حکومت اقتصادی معاملات پر فکرمند، متذبذب اور کنفیوژڈ ہے۔ سرکاری ذرائع نے ’’دی نیوز‘‘ کو بتایا کہ متضاد مشوروں نے وزیراعظم کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ٹیم میں تبدیلیوں والے آپشن پر غور کریں۔ اسی لئے آئی ایم ایف کے ایک سابق اہلکار مسعود احمد کو عمران خان کے ساتھ ملکی اقتصادی صورتحال پر خصوصی گفتگو کے لئے بذریعہ خصوصی طیارہ لاہور سے اسلام آباد لے جایا گیا۔قارئین!اس ایکسر سائز کا نتیجہ کیا …

چور دے پُترا ٹول بکس خالی اے

محمد بلال غوری ہم پاکستانی قصہ گوئی کے دلدادہ ہیں۔ بچپن میں بزرگوں سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنتے ہیں، لڑکپن میں ٹارزن اور عمرو عیار کے کارنامے پڑھتے ہیں، میٹرک میں نسیم حجازی کے ناول اچھے لگتے ہیں اور پھر زندگی بھر جھوٹی سچی حکایتوں پر مبنی قصے کہانیاں تاریخ سمجھ کر سنتے رہتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ آج ایک ایسی روداد بیان کی جائے جو حقیقت کے قریب ترین ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے ملک کی ہے جس پر بدعنوان حکمران مسلط تھے۔ یہ کرپٹ مافیا قومی خزانے اور وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف تھا۔ روزانہ کم از کم 7ارب روپے کرپشن کی نذر ہو رہے تھے۔ سالانہ 10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہو رہی تھی۔ عوام بیوقوفی کی حد تک سادہ تھے اس لئے رہزنوں کو رہبر سمجھ رکھا تھا۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں قوم کے ’’بڑوں‘‘ نے کرپشن کا ڈھول بجا کر لوگوں کو ان حکمرانوں کا اصل چہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ایک مسیحا اور نجات دہندہ جسے اَن پڑھ اور گنوار …

عمران خان کا المیہ

’ حسن نثار ا ہُما ‘‘ ایک خیالی پرندہ ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ جس کے سر پر بیٹھ جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔اسی لئے تو ظلِ ہما اور ہمایوں جیسے نام بہت مقبول ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سر پہ بیٹھ کر بادشاہ بنا دینے والا یہ پرندہ کبھی کبھی سر لے بھی جاتا ہے یا سر بلند کو سرنگوں بھی کر دیتا ہے۔ آج بروز پیر مورخہ 7جنوری 2019ء یہ کالم لکھنے سے پہلے اخبار بینی کے دوران’’جنگ‘‘ کے پہلے صفحہ پر ڈاکٹر فرخ سلیم کا ایک بیان پڑھا کہ ….’’روپے کی قدر میں کمی کے نتائج نہیں ملے ۔مہنگائی دگنا ہو گئی حکومتی نیت درست لیکن قابلیت کا فقدان ہے ۔عہدے کے ذریعہ جیبیں گرم کرنا کرپشن ہے‘‘ہم سب جانتے ہیں کہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ صاحبِ علم ہی نہیں صاحبِ ضمیر بھی ہیں ورنہ وہ بیان کبھی نہ دیتے جس کے نتیجہ میں آپ ’’حکومتی ترجمانی‘‘ گنوا بیٹھے یا ملتے ملتے رہ گئی یعنی کبڑے کو لات راس آ گئی کیونکہ ہم جیسے معاشروں میں حکومتی …

دریا کے اندر علم کا دریا… رضا علی عابدی

کوئی مشکل ہی سے یقین کرے گا کہ دریائے سندھ کے پاٹ میں ویران پڑے ہوئے علاقے میں،جسے کچے کا علاقہ کہتے ہیں، جہاں کچھ عرصے پہلے تک ڈاکوؤں، لٹیروں اور اٹھائی گیروں کا راج تھا، آج وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اسکول تعمیر ہوگئے ہیں جن میں نہ صرف لڑکے بلکہ سینکڑوں لڑکیاں بھی تعلیم پا رہی ہیں۔میں وہاں گیا تو جن عمارتوں کو میں پولیس اسٹیشن سمجھا تھا وہ جدید درس گاہیں تھیں۔ پولیس کا تو ذکر ہی کیا، بے چارے سپاہی اس علاقے میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے، اسی ویرانے میں تنہا کھڑی ہوئی ایک ویران عمارت دیکھی جوپولیس نے ڈاکوؤں کو کچلنے کے لئے اپنی چوکی کے طور پر بنائی تھی۔ ڈاکوؤں کو اپنے ہتھیار چلانے اور نشانے بازی کی مشق کرنے کے لئے اچھا ٹھکانا مل گیا اور عمارت پر اتنی گولیاں چلیں کہ پولیس کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا۔میں گیا تو اسی شیر دریا کا یہ نظار ہ بھی کیا جسے دیکھنے کے لئے میںتیس برس پہلے لدّاخ سے اس کے ساتھ ساتھ چلا تھا۔ صو …