Month: June 2018

ٹیکس کلچر کا فقدان کیوں؟

عام انتخابات 2018ء کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے 60فیصد سے زائد امیدواروں کے ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے یا ان کی جانب سے گوشوارے جمع کرانے میں اجتناب کی جو بھی وجوہ ہوں، ان پر سماجی و نفسیاتی علوم کے ماہرین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسا حل تجویز کرنا چاہئے کہ جو لوگ قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کیلئے خود کو بطور امیدوار پیش کریں ان میں کاغذات نامزدگی کیساتھ پیش کی جانے والی تفصیلات کی فراہمی جیسے امور پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان نظر آئے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق 25؍جولائی 2018ء کے انتخابات کیلئے جن 21428 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ان میں سے 30فیصد کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) نہیں ہے۔ انہوں نے ٹیکس گوشوارے بھی نہیں جمع کرائے جبکہ قانونی طور پر گوشوارے جمع نہ کرانے والا نادہند سمجھا جاتا ہے۔ اس باب میں ایک نظریہ یہ ہے کہ کئی امیدواروں کے پاس اثاثے ہیں ہی نہیں۔ ماضی میں ایک آدھ ایسا واقعہ بھی دیکھنے میں آیا کہ قومی …

’’ڈیلی میل‘‘ اور میاں پراپرٹی ڈیلر

ڈھائی دن تو اسلام آباد کھاگیالیکن میرے ڈھائی دنوں کی کیااوقات کہ یہ شہر تو قوم کے کئی سال کھا گیا۔ یہ شہر سر و کے پودے جیسا ہے یعنی دیکھنے میں خوبصورت لیکن نہ پھل نہ پھول نہ چھائوں اور کوئی چڑیا بھی چاہے تو اس میں پناہ نہیں لے سکتی۔ پچھلے دنوں دو دن کے مہمان نگران وزیر اعظم کا تام جھام، پروٹوکول دیکھا تو ایک عجیب سا خیال آیا کہ جب اس شہر میں بڑے بڑے ہائوسز یعنی پارلیمینٹ، پریذیڈنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس وغیرہ کی تعمیر شروع ہوئی تو شاید یہود و ہنود نے ان تمام گھروں کی بنیادوں میں تعویذ رکھوا، دبوا دیئے ہوں گےکہ جو کوئی ان عمارتوں میں داخل ہوگا، وہ پاگل سا ہوجائے گا اور اس پاگل پن کا مطلب یہ کہ پیسے اورپروٹوکول کے لئے اس کی بھوک بےکراں ہو جائے گی۔ جس شرح سے اسے پیسہ اورپروٹوکول ملےگااسی تناسب سے اس بائولے کی بھوک بڑھتی چلی جائے گی۔ بھٹو کی پھانسی پر اسلام آباد اوربیوہ بیگم نصرت بھٹو کے حوالے سے مرحومہ نسرین انجم بھٹی …

غیرمعمولی انتخابات

ملک میں عام انتخابات منعقد ہونے میں صرف ایک ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے، اقتدار کے حصول کی اس انتخابی جنگ کیلئے گھمسان کا رن پڑنے والا ہے، کاونٹ ڈاون شروع ہو چکا اس لئے ہر گزرتے دن کیساتھ متحارب سیاسی جماعتوں ،امیدواروں اور حمایتیوں کے درمیان اعصاب شکن مقابلے کی تیاریاں بتدریج زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ پچیس جولائی کو منعقد ہونیوالا یہ انتخابی معرکہ پاکستان کی تاریخ میں متعدد وجوہات کے باعث غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے، تین بار وزیر اعظم منتخب ہونیوالے سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے انتخابی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں، ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنی زندگی میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں لیکن احتساب عدالت میں جاری نیب ریفرنسز کی سماعت آخری مرحلے پرپہنچ چکی ہے جس میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کا فیصلہ عام انتخابات سے قبل سنائے جانے کا قومی امکان ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی

یوسفی صاحب!

مشتاق احمد یوسفی سے گہری نیاز مندی کا شرف مجھے بھی حاصل ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ میں کراچی جائوں اور اپنے دیرینہ دوست اشرف شاہین یا کسی اور کے ساتھ یوسفی صاحب کی طرف نہ جائوں۔ چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اشرف شاہین جب لاہور ہوتا تھا شاہین اس کے نام کا حصہ تھا مگر جب سے کراچی گیا ہے، وہ اپنے نام کے ساتھ شاہین نہیں لکھتا، میاں لکھا کرو، شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں کبھی دیکھا ہے کہ کسی نام نہاد مرد نے بھی خود کو مرد نہ لکھا ہو، تم تو لاہور میں بھی شاہین تھے، کراچی میں بھی شاہین ہی ہو۔ چلو تمہاری خبر کبھی بعد میں لوں گا، میں یوسفی صاحب کے بارے میں اظہارِ خیال کر لوں، مگر میرے دوست مجھ سے یہ توقع بالکل نہ رکھیں کہ میں ان کی وفات کے حوالے سے رونے رلانے کے موڈ میں ہوں۔ یہ موڈ مجھ پر تب طاری ہوتا اگر وہ اپنی کتابیں بھی ساتھ لے گئے ہوتے، ان کی کتابیں یعنی وہ …

عہد یوسفی کا خاتمہ؟

اردو ادب میں مزاح نگاری کو ایک نئی جہت عطا کرنے والے مشتاق احمد یوسفی اب ہم میں نہیں رہے۔ کہا جارہا ہے کہ ’’اردو ادب کا عہد یوسفی ختم، مشتاق یوسفی انتقال کرگئے‘‘ بجا کہ خالق دو جہاں کے وعدے کے مطابق ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ بہر طور چکھنا ہے۔ تاہم جسمانی موت خیالات و افکار کوبھی لقمہ اجل بنا دیتی ہے یہ بات غور طلب ہے! اگر ایسا ہوتا تو سقراط سے لیکر غالب تک کب کے فراموش کئے جا چکے ہوتے، یوں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’’مشتاق یوسفی انتقال کر گئے‘‘ عہد یوسفی موجود ہے اور تب تک رہے گا جب تک پھکڑ پن اور لغومزاح کے بجائے شائستہ اور شگفتہ مزاح پڑھا جاتا رہے گا‘‘ 1921ء میں تولد ہونے والے مشتاق یوسفی کا وطن ٹونک جے پور، راجستھان تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا۔ پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک بھارت میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1950ء میں ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور بینکنگ …

الیکشن۔ اہمیت شخصیات کی یا مسائل کی

میں پانی کا ایک گھونٹ پیتے وقت،وضو کرتے،غسل لیتے کانپ رہا ہوں کہ میں اپنے پوتے پوتیوں نواسوں نواسیوں کے حصّے کا پانی استعمال کررہا ہوں۔ آٹھ دس سال بعد وہ میری اس لا پروائی کا خمیازہ پانی کی راشن بندی کی شکل میں بھگت رہے ہوں گے

سیاستدان برادری کے لئے ایک کالم

سیاستدان بہت سیانا ہوتا ہے لیکن اس کا سیانا پن بہت ہی سطحی قسم کا ہوتا ہے۔بطور کمیونٹی بھی انہیں اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ ان کی عزت کتنی ہے اور عموماً کتنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں خصوصاً ان حلقوں میں جن کے اندر ان کی’’اہمیت‘‘ ہونی چاہئے کیونکہ عوام میں ان کی اہمیت تو نہ ہونے کے برابر ہے، خصوصاً ووٹ وصولنے کے بعد تو عوام اس گائے کے برابر رہ جاتے ہیں جس کا دودھ سوکھ گیا ہو اور ماس بوٹی بھی برائے نام رہ گئی ہو۔ہمارا سیاستدان کرتا کیا ہے؟اقتدار سے باہر ہو تو بہادری نہیں ڈھٹائی سے مار کھاتا ہے یا مل جل کر ڈنگ ٹپاتا ہے اور کچھ سیانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی اقتدار کے ساتھ بنائے نبھائے رکھتے ہیں اور ان کا دال دلیہ چلتا رہتا ہے کہ جانوروں کی قسمیں ہوتی ہیں مثلاً کتے آپس میں لڑتے رہنے کے لئے مشہور ہیں جبکہ بھینسوں کے بارے مشہور ہے کہ وہ بہنوں کی طرح ہوتی ہیں اور مل جل …

چائلڈ لیبر کا خاتمہ ضروری

گزشتہ دنوںبچوں سے جبری مشقت کیخلاف عالمی دن منایاگیا جس کا بنیادی مقصد محنت کش بچوں کی تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن بنانا ہے۔یہ ہمارا المیہ ہی ہے کہ سائنس و ترقی کے جدید دور میں بھی بچوں کو اس جبر سے نجات نہ دلائی جاسکی خصوصاًغریب ممالک کی صورتحال انتہائی توجہ طلب ہے کہ وہاں ہر چوتھا بچہ چائلڈ لیبر کا شکار ہے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مختلف ذرائع کے اعدادشمار کے مطابق دنیا میں 21کروڑ80لاکھ بجے محنت مزدوری میںمصروف ہیں ۔جن میں 15کروڑ 20 لاکھ اسکول جانے سے قاصر اور بچپن کے ان قیمتی ایام میں غیر محفوظ ماحول میں مشقت کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز مزدوری کے مقاما ت پر بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی استحصال کے کیسز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت 7کروڑ 30لاکھ بچے ایسے ماحول میں کام کررہے ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ دنیا کے کل چائلڈ لیبر کا نصف 5 سے11 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔وطن عزیز میں …

پانی کی قلت۔ واقعی؟

’پاکستان میں پانی کم ہے، پانچ برس بعد یہاں پینے کا پانی ختم ہو جائے گا، پاکستان کا شمار اُن بدترین ممالک میں ہوتا ہے جو پانی کی کمی کی وجہ سے دنیا میں فلاں نمبر پر ہیں، بھارت ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارا پانی چوری کر رہا ہے، ہمارے دریا سوکھ چکے ہیں، پاکستان میں اگر ہم نے پینے کا پانی نہ بچایا تو کل کو ہماری فصلوں کے لئے پانی نہیں بچے گا اور اگر فصلیں خشک ہو گئیں تو ملک میں قحط پڑ جائے گا اور اگر قحط پڑ گیا تو ہم سب بھوکے مر جائیں گے، لہٰذا پانی کی بچت ضروری ہے، ہم سب کو چاہئے کہ آج سے ہم اپنی گاڑیاں ایک پانی بالٹی سے دھوئیں اور نہانے کے لئے شاور کا استعمال بند کر دیں۔‘‘ یہ ہے خلاصہ اُس ڈراؤنے خواب کا جو آج کل ہمیں دکھایا جا رہا ہے، اصولاً تو مجھے بھی اِس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال کر ریٹنگ سمیٹنی چاہئے اور اعداد و شمار کو اِس بھیانک انداز میں پیش کرنا چاہئے …

تھرکول میں کالا سونا

منگلا اورتربیلا ڈیم جیسے بجلی پیدا کرنے والے میگا منصوبوں کی تکمیل کے بعد پالیسی ساز اداروں نے ہائیڈرل پاور کے حصول کیلئے مستقبل میں مزید ڈیمز بنانے کا جو پروگرام تیار کیاتھا بلاشبہ اس سے سستا اور موثر پاکستان جیسے زرعی وصنعتی ملک کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہوسکتا اس سے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ آبپاشی کے لئے مطلوبہ مقدار میں پانی کاحصول بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن بعض زمینی حقائق کے پیش نظر یہ پروگرام ہنوز سرد خانے میں پڑا ہے اس کے باعث متبادل ذرائع سے انتہائی مہنگی بجلی حاصل کرنی پڑ رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ اورقرضے اسی کانتیجہ ہیں۔ایسے مشکل وقت میں سندھ کے علاقہ تھر میں کوئلے کے مزیدذخائر دریافت ہونا ہمارے لئے نہایت حوصلہ افزا اوربڑی پیشرفت ہے اس بارے میں بلاتاخیر ماہرین اورپالیسی ساز اداروں کوسنجیدگی سے غورکرنا ہوگا تاکہ توانائی کے حصول کی پائیدار اوردوررس نتائج کی حامل پالیسی بنائی جاسکے۔اس وقت دنیا کے62ممالک ایسے ہیں جہاں بجلی کی پیداوار کابڑاحصہ کوئلے سے حاصل کیاجاتا ہے ان میں سرفہرست ہمارا دوست ملک چین ہے جہاںتین …

ڈیم بنائیں،مگر اتفاق ِرائے سے

بھارت کی طرف سے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان بھر میں تشویش پائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ افسوسناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان کے شواہد کو مسترد کردیا ۔ اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کو 27فیصد پانی کی کمی سامنا کرنا پڑے گا بلکہ دیگر کئی مسائل بھی سر اٹھائیں گے۔ بھارت نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کے پاس چونکہ کوئی آبی ذخیرہ نہیں، چنانچہ پاکستان یہ پانی ذخیرہ یا استعمال کئے بغیر ضائع کردیتا ہے، اس پر ایک بار پھر پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی جس پر کچھ لوگوں نے اعلیٰ عدلیہ سے بھی استدعا کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔ ہفتہ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے کالا باغ ڈیم پر عدالت کوئی بحث نہیں کرے گی، البتہ سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور …

مبارک ہو لیکن

…مبارک ہو…..ن لیگ کی ترقی بری طرح ’’لیک‘‘ کرگئی ہے یعنی نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی چھتیں ایک بارش برداشت نہ کرسکیں اور جگہ جگہ سے بری طرح لیک کرنے لگیں۔خاکروب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پانی خشک کرنے میںناکام رہے۔اربوں روپے کے اس منصوبہ میں گھٹیا میٹریل اور گھٹیا کارکردگی کا اس سے بہتر ثبوت اور کیاہوسکتا ہے؟ ’’اک واری فیر شیر‘‘مبارک ہو….. میں نے اپنی گنہگا رآنکھوں سے ایک مقامی ٹی وی چینل کی سکرین پر یہ روح پرور نظارہ دیکھا کہ رمضان بازاروں میں میئر لاہور مبشر جاوید گلی سڑی گھٹیا سبزیا ںاور پھل اٹھااٹھا کر پھینک رہے ہیں۔ میئر پر اک عجیب وحشت طاری تھی جو مجھے بہت پسند آئی۔ برکت مارکیٹ، مکہ کالونی اور غالب مارکیٹ سے باب ِ پاکستان کے رمضان بازار تک بدنیتی، بددیانتی اور سفاکی کے شہکار تھے یا ہمارے حقیقی اجتماعی چہرے کے اشتہار تھے جس نے لارڈ میئر لاہور کرنل (ر) مبشر کو غصہ، جھنجھلاہٹ، بے بسی میں مبتلا کردیا۔ روزہ دار، روزہ داروں کوکیا بیچ رہےتھے؟ اور یہ بھی ہم ہی ہیں جو …