Month: March 2018

دماغ ماؤف ہیں

پاکستان وہ ملک ہے جسے ستر برس پہلے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر بنایا گیا، وہ دو قومی نظریہ جس نے ہندوستان اور پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ابتداء ہی سے پاکستان کے حصے میں مختلف اکائیاں آئیں۔ ہر اکائی کے پیروں میں اپنے مذہب، اپنے عقیدے، اپنے نظریئے اور اپنی روایات کی بیڑیاں تھیں جنہوں نے کبھی ان اکائیوں کو ایک قوم بننے نہیں دیا۔ فی الحال ہم قوم نہیں، غلاموں کا ایک ہجوم ہیں؛ اور اس غلامی کا فیصلہ، ہجوم کا اکثریتی فیصلہ ہے۔ قومیں طالب علم بناتے ہیں، طالب علم درسگاہوں سے نکلتے ہیں؛ اور یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ستر برسوں میں نہ ہی طالب علموں اور نہ درسگاہوں پر کوئی محنت کی گئی۔ بالفاظ آسان، پاکستان میں عوام اور اقتدار دو متضاد سمتوں کا نام ہے۔ ایک طبقہ مذہب اور شریعت چاہتا ہے اور دوسرا طبقہ عالمی سیاسی و سماجی قوانین کی غلامی۔ دادا جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، ان کے بیٹے فوجی حکمراں کی جانب تکتے ہیں، جبکہ نوجوان نسل تاحال یہ طے نہیں کرپائی کہ وہ …

کہاں وہ، کہاں یہ

کبھی قائد اعظم ثانی کبھی شیر شاہ سوری ثانی اور اب نظر تیمور کی اولاد پر ہے ۔ شاہ جہاں کے بیٹے، جہانگیر کے پوتے، جلال الدین اکبر کے پڑ پوتے پر جو خود ظہیر الدین محمد بابر کا پوتا تھا…داراشکوہ جس کا مطلب ہے ’’King of Glory‘‘اور جو برصغیر کی تاریخ میں فلسفی شہزادہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور ان کی وجہ شہرت؟وہ پیدائشی شاعر، خطاط اور مصور تھا اور یہ؟وہ علماءکے ہجوم میں گھرا رہتا تھا اور یہ؟جتنی کتابیں اس نے لکھیں، ہمارے ’’ممدوح‘‘ نے زندگی بھر چھوئی بھی نہ ہوں گی۔مجمع الجرین۔ سفینتہ الاولیاء، جوگ شست، سکینہ اولیاء، حسنات العارفین ، مکالمات داراشکوہ۔ اسے فارسی، عربی، ترکی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور اس پرچی بادشاہ کو؟محمد داراشکوہ 20مارچ 1615 کو پیدا ہوا۔ 30اگست 1659صرف 44سال کی عمر میں قتل کر دیا گیا۔ اس کا دھڑ ہمایوں کے مقبرہ میں دفنایا گیا لیکن کوئی نہیں جانتا کہاں، کیونکہ خطرہ تھا کہ عوام وہاں منتیں ماننے لگیں گے ۔داراشکوہ کو یہ نام اس کے دادا نور الدین …

تیئیس مارچ 1940

22مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کا لاہور میں اجلاس ہماری تاریخ کا روشن مینار اور اہم ترین سنگ میل اس لئے ہے کہ اس اجلاس میں مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ہندوستان کے مسلمانوں کے دل کی آواز تھا۔ قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کی منظوری سے قبل اس اجلاس میں قائد اعظم نے دو گھنٹوں پر محیط جامع خطاب کیا جو اُن کے سیاسی تجربے اور تاریخی مطالعے کا نچوڑ تھا۔ اپنی تقریر میں جہاں قائد اعظم نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے گزشتہ چھ ماہ مسلمانوں کی تاریخ اور قانون کے مطالعے میں صرف کئے ہیں وہاں یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنے طور پر قرآن مجید کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ان کا مطالبہ پاکستان قرآن مجید، مسلمانوں کی تاریخ اور قانون کے مطالعے کا نچوڑ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کی الگ شناخت، ہندو مذہب اور کلچر سے تضادات اور مسلم قومیت پر زور دیا۔ قائد اعظم کی …

میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم

بھٹو صاحب نے اسکندر مرزا کو جناح سے بڑا لیڈر کہہ دیا، شہباز شریف نے نوا ز شریف کو قائد ِ اعظم کا سیاسی وارث بنادیااو ر میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم ۔کل بولی نہ آج ! ویسے تو سب نے سن،پڑھ ہی رکھا ہوگا ،مگر پھر بھی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ ایسے تھے ہمارے قائد اور ایسا تھا قائد کا پاکستان ،گورنر جنرل ہاؤس کیلئے ساڑھے 38روپے کا سامان خریدا گیا ،قائد نے حساب دیکھ کر کہا ’’جو چیز یں فاطمہ کی، ان کے پیسے وہ دیں گی ،اپنی چیزوں کے پیسے میں خود دوں گااور جو کچھ گورنر جنرل ہاؤس کیلئے، وہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کی جائے ‘‘، زیارت میں سردی زیادہ ہوئی تو کرنل الٰہی بخش نئے گرم موزے خریدلائے ،قائد نے موزے دیکھے ،پسند فرمائے ،لیکن قیمت کا پتا چلا توبولے ’’کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں ‘‘ کرنل الٰہی بخش نے مسکرا کر کہا’’ یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں ‘‘ بولے ’’میرا اکاؤنٹ بھی توقوم کی امانت ،ایک غریب ملک کے سربراہ …

تعلیم اورپائیدارترقی کاتصور

تعلیم اورترقی کاآپس میںگہرا ربط ہے۔ کہتے ہیں تعلیم ترقی کازینہ ہے لیکن عام طورپر ترقی کی اصطلاح کومحدود معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے مثلاً یہ کہاجاتاہے کہ تعلیم کے ذریعے ایک بہترنوکری کاحصول آسان ہوجاتاہے یاپڑھے لکھے شہری معاشی ترقی میںکارآمدثابت ہوسکتے ہیں۔یہ ترقی کامحدود تصور ہے کیونکہ محض بڑے بڑے آبی ذخائر، ریلوے ٹریک، پختہ شاہراہیں، بلندوبالاعمارتیں اورشاپنگ پلازے کسی ملک کی ترقی کے آئینہ دارنہیںہوتے۔ ترقی کے تصور کے کچھ اوراہم پہلواکثرہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ترقی کے معاشرتی پہلوئوں میں تعلیم، صحت، لوگوں کامعیار زندگی، خوراک اورپانی شامل ہیں ترقی کے اسی پہلو پرہندوستان کے ماہرِمعاشیات امرتاسین نے اپنی شاہکار کتاب (Development as Freedom)لکھی جس میںترقی کو سوچ، اظہار اورانتخاب کی آزادی کے ساتھ جوڑاگیا ہے۔ امرتاسین کے مطابق کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کاپیمانہ اس کی مادی ترقی کے علاوہ وہاں دستیاب آزادی بھی ہے۔انہی خطوط پر پاکستان میں ترقی کے معاشرتی پہلو کی طرف ہمارے ماہرمعاشیات محبوب الحق نے توجہ دلائی۔

ہارس ٹریڈنگ کا داغ

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے منتخب ارکان کو کم از کم پارلیمانی زندگی میں صداقت اور دیانت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چند پیسوں یا کسی دوسرے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے اصولوں پر سودے بازی یا اپنی سیاسی پارٹیوں سے غداری کر سکتے ہیں۔ وہاں پارٹیاں بدلنے کی روایت بھی نہیں کیونکہ پارٹیاں اقتدار کی نہیں اصولوں کی سیاست کرتی ہیں اور جو لوگ ان کی رکنیت اختیار کرتے ہیں وہ ان کے قومی ایجنڈے، منشور اور پروگرام کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر اور اپنی سوچ کے مطابق درست سمجھ کر ایسا کرتے ہیں۔انتخابات میں عوام مختلف ایشوز پر ان کے موقف کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں اور جو پارٹی قول ہی نہیں فعل میں بھی ان کے معیار پر پورا اترتی ہے جیت جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا جس کا آسانی سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یہاں حقیقی جمہوریت اور جمہوری روایات کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات …

جمہوری تاتاری اور کنٹرولڈ جمہوریت

ان کی نیتوں پر تو ہرگز شک نہیں لیکن ’’تھاٹ پراسیس‘‘ بری طرح مشکوک ہے کیونکہ ہمارے یہ مہربان گھسی پٹی اور رٹی رٹائی باتوں کے علاوہ اور کچھ سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں جیسے سینیٹ انتخابات پر کچھ نے ’’کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘‘ کا طعنہ دیا جبکہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایسا ہے تو سو فیصد صحیح ہے کہ اگر یہ جوتا مار جمہوریت بالکل ہی کنٹرول سے باہر ہو جائے تو قیامت آ جائے۔ یہ کوٹھے ٹپنی جمہوریت مادر پدر آزاد ہو کر مادر کو زندہ درگور کرنے کے بعد پدر کو آسان قسطوں میں بیچ دے۔ ابھی کنٹرولڈ ہے تو حال یہ کہ کرپشن اور نااہلی عروج پر ہے۔ اربوں سے کم کا سکینڈل ہی سنائی نہیں دیتا۔ میرٹ موت کے گھاٹ اتارا جا چکا، اداروں کو دیمک چاٹ چکی تو اگر اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دیا جائے تو تصور کریں یہ ملک اور

پاکستان کے لئے موزوں درخت

  حالیہ گرمی ، لوڈ شیڈنگ اور ہیٹ اسٹروک کے باعث اموات نے پاکستان کی عوام کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ گرمی سے کس طرح بچا جائے ۔اس کے لئے سب سے آسان حل یہ ہی کہ درخت لگائیں جائیں ۔درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں ۔درخت ماحول کو صاف رکھتے ہیں سیلاب طوفانوں کو روکتے ہیں ۔سایہ مہیا کرتے ہیں پھل دیتے ہیں، پرندوں کو رہائش،جانوروں کو خوراک مہیا کرتے ہیں ۔درخت آنکھوں کو سکون دیتے ہیں اور ہمیں آلودگی سے بچاتے ہیں ۔ فیس بک اور ٹویٹر پر بہت سے ماحول دوست افراد نے مہم بھی شروع کردی کہ آئیے درخت لگائیں لیکن کیا آپ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کی آب و ہوا اور محل وقوع کے حساب سے کون سے درخت لگانا موزوں رہے گا۔اس ہی لئے پاکستان ڈائری میں ہم نے یونیورسٹی آف ایگرکلچر فیصل آباد کے شبعہ فارسٹری کے چئیرمین پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا تاکہ وہ ہمیں درختوں کے حوالے …

خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

مختلف وجوہات کی بنا پر لاہور میں ایک ہی دن میں تین افراد کی خود کشی کے واقعات معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی اور بے چینی کے عکاس ہیں۔ آئے دن مختلف شہروں سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد 30سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال اقدام خود کشی کرنے والوں کی تعدادڈیڑھ لاکھ تک جبکہ خود کشی کے باعث ہلاک ہو جانے والوں کی تعدادہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کیلئے والدین واساتذہ ، بالخصوص علما کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان وجوہات کا تعین کیا جانا چاہئے جن کی تحت یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں گزشتہ برس550ایسی خواتین کو لایا گیا جنہوں نے خود کشی کی کوشش کی۔ ان میں زیادہ تر شادی شدہ تھیں جنہوں نے گھریلو ناچاقی اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ …