Latest Posts

Vision 21

A Company Registered under Section 42 of Companies Ordinance 1984. Corporate Universal Identification No. 0073421

Vision 21 is Pakistan based non-profit, non- partisan Socio-Political organisation. We work through research and advocacy. Our Focus is on Poverty and Misery Alleviation, Rights Awareness, Human Dignity, Women empowerment and Justice as a right and obligation.

We act and work side by side with the deprived and have-nots.

We invite you to join us in this mission. We welcome your help. We welcome your comments and suggestions. If you are interested in writing on Awaam, please contact us at: awaam@thevision21.org

Awaam      by   Vision21

↑ Grab this Headline Animator

کپتان پھر جیت رہا ہے……… محمد عرفان صدیقی

اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ، ہمیشہ ہی وزیر اعظم عمران خان کو اپنی تقریر کا آغاز اس قرانی آیت اور دعا کے ساتھ کرتے دیکھا ہے ، اور ہمیشہ ہی کپتان کو ہاری ہوئی بازی کو جیتتے دیکھا ہے ، ورلڈ کپ92 کی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ کمزور اور شکست خوردہ ٹیم کے ساتھ کپتان نے ورلڈ کپ جیتا اور خود کپتان کے الفاظ ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں شروع میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی لیکن ہمیشہ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی اور وہ کامیابی سمیٹتا رہا ، سیاست بھی کپتان کے لیے زندگی کا وہ شعبہ رہا ہے جس میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی لیکن اسے قدرت کی مدد حاصل رہی اور وہ کامیاب ہوتا رہا اور اسی کامیابی کے نتیجے میں دس ماہ قبل کپتان اس ملک کا وزیر اعظم بنا ۔پوری قوم اس بات کی گواہ ہے کہ ابتدائی دس ماہ میں جس قدر تنقید میڈیا میں کپتان پر کی گئی شاید اتنی کسی پر بھی نہیں ہوئی ۔کئی دفعہ تو ایسا لگا کہ شاید حکومت کسی بھی دن ختم کردی جائے یا اپوزیشن کوئی ایسا اتحاد قائم کرےجو پارلیمنٹ میں حکومتی برتری ختم کرکے اسے فارغ کردے تاہم اسی دوران کئی دوست ملکوں نے پاکستان کی معاشی مدد کرکےاقتصادی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ساتھ ہی ورلڈ بینک نے کڑی شرائط پر پاکستان کے لیے بھاری قرضہ منظور کیا ، جس کے بعد ایک بار پھر کپتان نے پاکستانی قوم پر بجٹ کے ذریعے بھاری ٹیکس لاگو کیے ، عوام کے بڑے طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے مشکل فیصلے کیے ، جس کے باعث کپتان کی عوام میں مقبولیت بھی کم ہوئی لیکن پھر بھی کپتان ڈٹا رہا اور آگے بڑھتا رہا ، صرف یہی نہیں بلکہ کپتان نے پاکستان کے دو سابقہ وزرائے اعظم سمیت ایک سابق صدر کو کرپشن کے الزام پر جیل میں ڈال دیا ،جبکہ ایک سابق وزیر اعلیٰ ، ان کے صاحبزادے سمیت درجنوں طاقتور Read More

بڑی سفارتی کامیابی! ادارتی نوٹ

طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر افغانستان میں قیامِ امن کے لئے فعال کردار ادا کرنے سے پاک امریکہ تعلقات میں جو بہتری آئی ہے خطے میں اس کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسندوں کے سب سے بڑے گروپ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور تین دوسرے گروپوں جنداللہ جیش العدل اور فدائین اسلام کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جانا اسی سلسلے کی کڑی اور پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ بلوچستان میں ویسے تو علیحدگی پسندوں کے تقریباً پچاس چھوٹے چھوٹے گروپ کام کر رہے ہیں مگر بی ایل اے، بی آر اے اور بی ایل ایف ان میں سب سے زیادہ منظم ہیں جبکہ جنداللہ جیش العدل اور فدائین اسلام پر پاکستان، ایران اور افغانستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں۔ بی ایل اے کے سربراہ سابق صوبائی وزیرِ داخلہ حیربیار مری اور بی آر اے کے سرپرست براہمداغ بگٹی ہیں۔ امریکہ میں بی ایل اے سمیت چاروں تنظیموں کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں اور امریکی شہریوں پر ان کے ساتھ ہر طرح کے لین دین پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے والی تنظیموں، ان کے منتظمین، معاونین اور ان کے بیرونی

Read More

ری سائیکل پلانٹ ناگزیر ادارتی نوٹ

ہمارے معاشرے میں رجحان ہے کہ جب تک کوئی مصیبت یا مسئلہ گلے نہ پڑ جائے، ہم اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ پانی کے حوالے سے بھی ہمارا یہی مزاج ہے۔ ہم بحیثیت قوم پانی کو وہ اہمیت دیتے ہی نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جب پانی کی بہتات ہوتی ہے تو ہمیں کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی، نلکا چل رہا ہے تو چلنے دو، پانی بہہ رہا ہے تو بہنے دو۔ ہاں جب پانی کی قلت ہوتی ہے تو ہم بری طرح چیخ رہے ہوتے ہیں، حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک تو حکومت بھی پانی کی بچت کی طرف توجہ نہیں دیتی تھی لیکن اب حکومتی سطح پر پانی بچانے کی نہ صرف مہم شروع کی گئی ہے بلکہ اِس Read More

یہ کیسی غیرت ہے ؟

02 جولائی ، 2019

غیرت کے نام پر قتل جس کا نشانہ ہمارے معاشرے میں بالعموم گھریلو خواتین اپنے شوہروں یا باپ بھائی کے ہاتھوں بنتی ہیں،وہ انسانیت سوز طرز عمل ہے جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں، اس کے باوجود پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی ریاست میں سات دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی اس سنگین جرم کی روک تھام کا مؤثر بندوبست نہیں کیا جاسکا ۔نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن غیرت کے نام پر بہیمانہ قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔اس نوعیت کا ایک نہایت روح فرسا واقعہ گزشتہ روز ملتان میں پیش آیا جس میں سعودی عرب سے واپس آنے والے ایک پاکستانی شہری نے ناجائز تعلقات کے شبہ میں اپنی بیوی اور عورتوں بچوں سمیت آٹھ افراد پر مشتمل اس کے پورے خاندان کو زندہ جلادیا ۔اس وحشیانہ کارروائی میں اس شخص کے باپ نے بھی بیٹے کا ساتھ دیا۔ سی پی او ملتان کے مطابق دونوںملزمان کی گرفتاری عمل میں آگئی ہے اور ان قبضے سے اسلحہ، پٹرول کین اور ارتکاب جرم میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء برآمد کرلی گئی ہیں ۔ اعلیٰ صوبائی حکام نے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے اور ضابطے کی کارروئی شروع ہوگئی ہے لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انسانیت سوزروایت کا مکمل سدباب کیا جائے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اسلامی قانون کے تحت جرم ثابت ہو تب بھی کسی شخص کو Read More

From street to school and from Madrasa to college

A journalist friend invited us for an event at a modest apartment. The event was organized to encourage the elite of the town to help of destitute street children in getting education.

Hundreds of thousands of children in Pakistan are forced into begging or work as child labour to support their families instead of going to schools and enjoying their childhood.

Arzu Kazmi’s apartment was small but the event was big in purpose. It was not less than an inspiration for those who believe in action, not in words.

We met Abida Yar Gul from Suran a village of Mohmand now a district of KPK- earlier part of FATA agency. Abida, in her teen, narrated the touching story. She and her other nine siblings were not being sent to school.

Their father, a daily wage worker did not believe in sending his daughter to the school. He considered sending girls to formal schools taboo-against local traditions of his area.

She always had a strong desire for education but was unable to find ways. While narrating her story I would see tears rolling down her innocent eyes.

Her family first migrated to Mardan from Mohmand. Her father started working “Tall” (timber Yard) as a woodcutter with her grandfather. Abida was kept at home to help her mother and taking care of her siblings. Later on, her family later moved to Rawalpindi to find better economic opportunities. Read More

والدین سے اپیل حسن نثار

کئی سال پہلے کی بات ہے میں ’’بیلی پور‘‘ والے گھر کی بالکنی میں کھڑا ہریالی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کبوتروں کی غٹرغوں موسیقی سن رہا تھا کہ میرے سامنے بیری کے درخت میں جنگ چھڑ گئی۔ کوا جھپٹ رہا تھا اور چڑیا سے بھی چھوٹا انتہائی چمکدار سیاہ پدی ٹائپ پرندہ اپنے سے کئی گنا بڑے کوے کے سامنے ڈٹا ہوا پینترے بدل بدل کر اس کا راستہ روک رہا تھا۔ کچھ دیر تو میں اس منظر سے محظوظ ہوتا رہا لیکن جب میں نے چھوٹے پرندے کو تھکتے دیکھا تو مالی سے کہا ’’بشارت! اس منحوس مردود کوے کا بندوبست کرو‘‘ کوا بھگا دیا گیا تو مالی نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’’یہ روز کا تماشا ہے۔ کوا اس کے انڈے کھانا چاہتا ہے لیکن یہ چھوٹی سی جان ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتی ہے‘‘۔اپنے بچوں کے لئے تو جانور اور پرندے بھی لڑنے مرنے پر تل جاتے ہیں، انسان تو پھر انسان ہے جو اولاد کے لئے جہنم تک میں جا گھستا ہے۔ بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے جنون میں لوگ جانے کیا کیا کچھ کر گزرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہی والدین اپنے بچوں کے لئے بدترین دشمن بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس بھیانک صورتحال کے دو پہلو ہیں۔ایک طرف ہم تیرہ، چودہ، پندرہ برس کے بچوں کو چنگ چی چلاتے دیکھتے ہیں۔ کبھی غور کریں ان کم سن لڑکوں کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوتیں لیکن یہ سواریوں سے لبالب بھری چنگ چیاں

Read More

غیر مسلموں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت مرزا اشتیاق بیگ

بھارت میں جہاں ایک طرف ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو عصبیت اور نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں دوسری طرف اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر کئی ہندو اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال بھارت میں کئی ہندوئوں کا نہ صرف رمضان میں دلچسپی لینا تھا بلکہ روزہ رکھ کر افطار کا اہتمام کرنا تھا۔ اس بار متعصب ہندوئوں کو اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب یہ خبر منظر عام پر آئی ہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع تہار جیل میں رمضان المبارک کے مہینے میں نہ صرف 150سے زائد بھارتی ہندو قیدیوں نے روزے رکھے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار بھی کیا۔ دیگر ممالک کی طرح یو اے ای میں بھی اس بار درجنوں ہندوئوں نے رمضان المبارک مناتے ہوئے نہ صرف روزے رکھے بلکہ مساجد میں جاکر مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار کیا، جن کا یہ کہنا تھا کہ انہیں روزہ رکھ کر دلی سکون محسوس ہوا اور وہ اسلام سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ Read More

ذرا سوچیں، پھر قدم بڑھائیں… اداریہ

سیاست، معیشت اور امن و سلامتی کسی بھی ملک کے استحکام کے بنیادی پیمانے ہیں اگر یہ مستحکم ہیں تو ملک بھی مستحکم ہے، اگر رعایا ان کے متعلق بے یقینی میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہے، گڈ گورننس کا فقدان ہے، معیشت بدحالی سے دو چار ہے اور امن و امان خدشات کی زد میں ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ تینوں اعتبار سے لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے تقریباً حالت جنگ میں ہیں، اسمبلیاں قانون سازی کی بجائے سیاسی زور آزمائی کے اکھاڑوںکا منظر پیش کر رہی ہیں، معیشت لڑ کھڑا رہی ہے، بیرونی قرضوں کا بوجھ پہلے ہی بہت تھا انہیں اتارنے کے لئے یہ بوجھ مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ حکومت بے شک نیک نیتی سے معاشی بحران حل کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے اور وزیراعظم کا یہ بیان نہایت امید افزا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے بچا لیا گیا ہے اور معیشت اب ٹیک آف کے لئے تیار ہے۔ توقع ہے کہ آگے چل کر حکومت کی یہ کوششیں بار آور ثابت ہوں اور حالات یکسر بدل جائیں لیکن اس کے کیے گئےاقدامات کی بدولت لوگوں کو فی الحال معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر نے ملکی کرنسی کو بے حال کر دیا ہے، مہنگائی تیزی سے بڑھ Read More

جون، خون اور قانون

صادق مصطفوی

چھ ماہ و سال اچھے یا برے واقعات کے باعث تاریخ میں اپنی ایک الگ پہچان چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسے یکم مئی کا دن امریکا کے شہر شکاگو میں 1986 میں 8 گھنٹے ڈیوٹی کےلیے احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان قربان کرنے والے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مزدوروں نے سال میں ایک دن اپنے نام تو کرلیا، مگر آج بھی مفلسی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

Read More

کفن فروش گورکن حسن نثار

لال حویلی کے لعل شیخ رشید نے دو اہم باتیں کی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ ’’لولی لنگڑی جمہوریت کسی حادثہ سے دوچار ہو سکتی ہے‘‘۔ شیخ صاحب کے منہ میں گھی شکر کیونکہ یہ جمہوریت جسمانی طور پر ہی لولی لنگڑی نہیں، ذہنی طور پر بھی ری ٹارڈڈ ہے جسے اخلاقی حوالہ سے اخلاق باختہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے دعویداروں کی اکثریت دراصل جمہوریت کی فصل کی سنڈیوں پر مشتمل ہے اور اسی لئے آج تک یہ فصل پوری طرح جوان نہیں ہو سکی۔ جب تک یہ سیاسی سنڈیاں پوری طرح تلف نہیں ہوتیں، جمہوریت لولی لنگڑی بھی رہےگی اور حادثات کے امکانات بھی یونہی روشن رہیں گے۔ گزشتہ دس سال میں یہ جمہوریت اس ملک کے جمہور کا جو حشر کر چکی ہے، اسے ریورس کرنے کیلئے بھی تقریباً اتنا ہی وقت درکار ہوگا۔ ملکی اقتصادیات سے لیکر عوامی اخلاقیات تک چند جمہوری چیمپئنز نے جو چاند چڑھائے اور گل کھلائے اس کی انتہا یہ ہے کہ آج بھارتی وزیراعظم پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر کورا جواب دے چکا۔عمران خان نےبھی کچھ عجلت سے کام لیا۔ شاہ محمود قریشی کا خط ہی کافی تھا۔ نجانے وزیراعظم نے خود پیش قدمی کو ضروری کیوں سمجھا؟ امن کی خواہش اور کوشش ایک انتہائی قابل ستائش بات ہے لیکن عزتِ نفس کی قیمت پر امن شاید کسی بھی پاکستانی کو قبول نہ

لال حویلی کے لعل شیخ رشید نے دو اہم باتیں کی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ ’’لولی لنگڑی جمہوریت کسی حادثہ سے دوچار ہو سکتی ہے‘‘۔ شیخ صاحب کے منہ میں گھی شکر کیونکہ یہ جمہوریت جسمانی طور پر ہی لولی لنگڑی نہیں، ذہنی طور پر بھی ری ٹارڈڈ ہے جسے اخلاقی حوالہ سے اخلاق باختہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے دعویداروں کی اکثریت دراصل جمہوریت کی فصل کی سنڈیوں پر مشتمل ہے اور اسی لئے آج تک یہ فصل پوری طرح جوان نہیں ہو سکی۔ جب تک یہ سیاسی سنڈیاں پوری طرح تلف نہیں ہوتیں، جمہوریت لولی لنگڑی بھی رہےگی اور حادثات کے امکانات بھی یونہی روشن رہیں گے۔ گزشتہ دس سال میں یہ جمہوریت اس ملک کے جمہور کا جو حشر کر چکی ہے، اسے ریورس کرنے کیلئے بھی تقریباً اتنا ہی وقت درکار ہوگا۔ ملکی اقتصادیات سے لیکر عوامی اخلاقیات تک چند جمہوری چیمپئنز نے جو چاند چڑھائے اور گل کھلائے اس کی انتہا یہ ہے کہ آج بھارتی وزیراعظم پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر کورا جواب دے چکا۔عمران خان نےبھی کچھ عجلت سے کام لیا۔ شاہ محمود قریشی کا خط ہی کافی تھا۔ نجانے وزیراعظم نے خود پیش قدمی کو ضروری کیوں سمجھا؟ امن کی خواہش اور کوشش ایک انتہائی قابل ستائش بات ہے لیکن عزتِ نفس کی قیمت پر امن شاید کسی بھی پاکستانی کو قبول

Read More

سبزیاں مہنگی کیوں؟ ادارتی نوٹ

ہمارے ملک میں عید صرف تاجروں اور دکانداروں کی ہوتی ہے، تنخواہ دار طبقہ تو بس اِن کی خود ساختہ مہنگائی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔ بد قسمتی سے اِس عید الفطر پر بھی یہ رجحان برقرار رہا۔ باقی ضروریاتِ زندگی تو رہیں ایک طرف، عید گزرنے کے باوجود ابھی تک شہروں میں سبزیوں کی قیمتوں میں بھی کمی نہیں آ سکی۔ ابھی تک دکانداروں کی جانب سے مرضی کے نرخوں پر سبزیوں کی فروخت جاری ہے۔ سبزی کی دکانوں سے سرکاری نرخ نامے بھی غائب ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عید سے قبل 40روپے کلو فروخت ہونے والا پیاز ابھی تک 60سے 70روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ 250روپے میں ملنے والا لیموں 350سے 400روپے جبکہ ٹماٹر 50، سبز مرچ 60، لہسن 200اور ادرک 220روپے کلو میں فروخت ہوتا رہا۔ باقی تمام سبزیاں بھی مہنگے داموں فروخت کی گئیں۔ سبزیوں کی خود ساختہ مہنگائی کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ ہر عید پر گراں فروشی کا یہی عالم ہوتا ہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران مہنگائی کی شدید لہر نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان کی قوتِ خرید جواب دے گئی ہے۔ مہنگائی کے باعث قوتِ خرید نہ ہونے کی وجہ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال عیدالفطر پر خریداری کے رجحان میں 40فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ بلاشبہ ملکی معاشی صورتحال، ڈالر کے Read More

حکومت کی معاشی غلطیاں .ڈاکٹر مفتاح اسماعیل

رواں مالی سال، جولائی 2018سے لے کر جون 2019تک، ہماری معیشت کا بدترین سال ثابت ہوا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہماری اقتصادی حالت اتنی تیزی سے کیسے خراب ہوئی اور عوام مایوسی کا شکار کیوں ہوئے؟ حالانکہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو معیشت بہت اچھی حالت میں تھی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ضرور بڑھ رہا تھا اور اسے اگلے دو سے تین سال کے دوران کنٹرول کیا جانا تھا۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نےچار اہم غلطیاں کیں، جن کی وجہ سے ہماری قومی آمدنی میں(ڈالروں میں) دس فیصدکمی ہوئی۔ پہلی غلطی یہ کی کہ موجودہ قیادت جہاں گئی، پاکستانی معیشت کی برائیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ رات دن جاری اس بیانیے نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کردیا اور پھر سادگی کی دعویدار حکومت اپنے اخراجات کے لئے قرض لینے لگی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8فیصد سے گر کر یک لخت 3فیصد کے قریب آگئی۔ سرمایہ کاری اور ملازمت کے نئے مواقع رک گئے اور نہایت کامیابی سے صارف کا اعتماد تباہ کر دیا گیا Read More