سینے میں گولی اتری
تو بس ماں یاد آئی
پھر وہ مجھکو مارتے تھے
نوچتے تھے
زباں میں تھی سکت جب تک
گواہی میں نے دی انکو
کہ میں بھی ایک عاشق ہوں
مگر وہ مان بیٹھے تھے
کہ میں تو ایک مجرم ہوں،
پھر کسی لمحے
اذیت تھم گئی اور میں
خود اپنی لاش کو پٹتے ہوئے یوں دیکھتا تھا
وہ مجھ پہ کودتے تھے، ناچتے تھے
تکبیر کہہ کے پتھر مارتے تھے
مجھے ننگا کیا اور ریشہ ریشہ کر دیا
گو وہ جانتے تھے میں تو کب کا مر چکا
مر چکا تھا میں
مگر یہ چاہتا تھا
ایک لمحے کو سہی مجھ کو اجازت ہو
میں اپنے قاتلوں سے التجا کر لوں
کہ میری لاش میری ماں کو مت دینا
وہ سارے کرب جو مجھ پر اتارے ہیں
مرنے تک وہ انکے درد سے چلائے گی
انعام رانا
💖 Excellent,I read it several times, I highly appreciated,you have picturised the bitter reality of our society….💖