Uncategorized
Leave a Comment

ایماندار لیڈر اور ایماندار پارٹی ـ ایک سیاسی مغالطہ


Dr. Khalil Ahmad

ہر استحصال کی بنیاد کسی تصور یا/مغالطے پر ہوتی ہے ۔ تعصبات، نفرتیں، محبتیں، سب اسی زمرے میں آتی ہیں ۔

پھر یہ کہ یہ تصورات یا مغالطے بہر طور کسی نہ کسی کلیشے سے جُڑے ہوتے ہیں یا اس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔

اسی طرح کا ایک تصور یا مغالطہ یا کلیشے، پاکستان میں معلوم نہیں کب سے عام ہوا اور ابھی تک جان نہیں چھوڑ رہا ۔ کسی بیٹھک میں ہونے والی حالات ِ حاضرہ کی گفتگو سن لیں، یا کسی سیمینار میں جا پہنچیں، یا کسی ٹی وی ٹاک شو پر جاری بحث دیکھ لیں، ایک عام آدمی سے لے کر فہم و فراست کے دعویدار، بلا امیتاز، ایک ہی بات دہرائے چلے جا رہے ہیں کہ پاکستان کو اس کے ہمہ گیر بحران سے نکالنے کے لیے ایک ’’ایماندار لیڈر‘‘ درکار ہے ۔ زور ’’ایماندار‘‘ پر ہے ۔ اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کلیشے آج کل بہت عام ہے کہ ’’پاکستان کو لیڈر کی ضرورت ہے ۔‘‘

دراصل، یہ بڑا پرانا تنازعہ ہے کہ انسان، فطرتاً نیک ہے یا بد ۔ مگر آج تک طے نہیں ہو پایا ۔ اور میرا حقیر خیال ہے کہ کبھی طے ہو گا بھی نہیں ۔ کیونکہ کچھ سوال ہی غلط ہوتے ہیں ۔ جیسے ہم کہیں کہ درخت، نیک یا بد ہیں ۔ پھر اس تنازعے کے ساتھ ایک اور تنازعہ بھی جڑا ہوا ہے ۔ یعنی یہ کہ انسان کو اس کی فطرت، نیک یا بد بناتی ہے یا ماحول ۔ یہ ایک معقول تنازعہ ہے ۔ اس پر بحث جاری ہے، جاری رہے گی ۔ کیونکہ یقیناً ایک حد کے بعد ماحول اہم ہو جاتا ہے ۔ جیسے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلسل بھوک کسی شخص کو اخلاقیات بھلا سکتی ہے ۔ لیکن کیا ایسے میں اخلاقیات کو فراموش کر دینا جائز ہو گا، اس سوال کا تعلق اخلاقیات اور قانون سے ہے ۔

حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم اپنی کاوش میں لگے ہوئے ہیں کہ انسان فطرتاً نیک ہے یا بد ۔ ان کی تحقیقات اور نظریات کا اثر سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی پر بھی پڑتا ہے ۔ یہ چیز بہت خطرناک ہے ۔ بلکہ ایسا ہی ہوا کہ سیاسیات یا سیاسی فلسفیوں نے بھی اپنے سیاسی نظریات کو حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم کی ’’غیر قطعی‘‘ تحقیقات پر استوار کرنا شروع کر دیا ۔ جسیے ٹامس ہابس کا سیاسی فلسفہ جو انسان کو فطرتاً نیک نہیں سمجھتا ۔

عملاً ہوا یہ کہ انسانی فطرت سے متعلق نظریات کو سیاسی مہم جوؤں نے خوب استعمال کیا ۔ اس کا نقصان اس وقت انتہائی مہلک ثابت ہوا جب یہ نظریات کسی نہ کسی طور آئین اور قانون میں جگہ پانے لگے ۔

جیسا کہ یہ سوال ہی غلط تھا تو جواب بھی سارے غلط ٹھرے ۔ ذرا سا غور کریں تو سیاسی فلسفے میں اس سوال کا عکس کچھ اس طور پڑا کہ ہاں بھئی اگر انسان فطرتاً نیک ہے تو سیاسی حکومتی نظام کچھ اور طرح کا ہو گا، بلکہ یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی نظام کی ضرورت ہی نہیں ۔ جیسا کہ عمران خان کی سوچ ہے: وہ نظام کی بات نہیں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ سب پارٹیاں کرپٹ ہیں اور وہ ایماندار ہیں ۔

اور اگر انسان بد ہے تو اور طرح کا نظام درکار ہو گا ۔ مثلاً ہابس نے قرار دیا کہ افراد کو ایک مقتدر ِ اعلٰی کا باجگزار ہونا چاہیے ۔ انھیں کوئی آزادی نہیں ہونی چاہیے ۔

اس عکس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اگر کچھ انسان بد ہیں اور کچھ نیک، تو بہتر ہے کہ جو نیک ہے وہ حکمران ہو ۔ بات بہت معقول لگتی ہے ۔ لیکن کیا اتنی معقول ہے بھی، جتنی معقول نظر آتی ہے ۔

ان سب باتوں کے ضمن میں ایک بات تو صاف ہے کہ جب تک یہ سوال طے نہیں ہو جاتا کہ انسان فطرتاً نیک ہے یا بد، اس وقت تک ان تمام سیاسی فلسفوں کو طاق میں رکھ دینا چاہیے جو انسانی فطرت کے تصور پر استوار ہیں ۔

تو پھر کیا انتظار میں بیٹھے رہیں کہ کب بابا مریں اور کب بیل بٹیں ۔

ایک اور زیادہ معقول بات یہ ہے، اور جیسا کہ اوپر ذکر بھی ہوا، کہ بنیادی طور پر یہ سوال ہی غلط ہے ۔ اگر ہم حتمی طور پر یہ نہیں جانتے کہ انسان بد ہے نیک، تو اس قضیے پر کوئی فلسفہ تعمیر کرنا غلطی ہو گی ۔ میرا اشارہ دونوں باتوں کی طرف ہے، خواہ ہم حتمی طور پر یہ جانتے ہوں کہ انسان بد، یا یہ کہ انسان نیک ہے، ان دونوں چیزوں پر کسی سیاسی فلسفے کی عمارت بنانا بہت بڑی بھول ہو گی ۔

میں نے اوپر ذکر کیا کہ یہ سوال ہی غلط ہے اور اس کی مثال درخت کے نیک یا بد ہونے سے دی ۔ آپ کہ سکتے ہیں کہ یہ مثال ہی غلط ہے ۔ درخت بے جان اور بے شعور ہوتے ہیں ۔ درست ہے ۔ درختوں کے بارے میں یہ سوال اٹھانا اس لیے غلط ہو گا کہ درخت بے شعور ہیں اور انسانوں کے بارے میں یہ سوال اٹھانا اس لیے غلط ہے کہ وہ بہت زیادہ با شعور ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نیک اور بد کا تصور اور یہ اقدار انسان کی ایجاد ہیں ۔ تو جس نے نیک یا بد کو ایجاد کیا اسے یہ معلوم نہیں ہو گا کہ نیک ہونا کیا ہے اور بد ہونا کیا ہے ۔ اسے تو سب سے زیادہ پتہ ہے ۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہمیں، ہر ایک کو، ہر لمحہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم نیک ہیں یا بد ہیں ۔ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ نیکی کے زمرے میں آتا ہے یا بدی کے ۔ اور ہمیں ہر لمحہ یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم نیک رہیں یا بد رہیں ۔ یا بعض اوقات ہم اگر ہم بیشتر نیک کاموں کی وجہ سے خود کو نیک سمجھتے ہیں تو اہم کوئی بد کام کرتے ہوئے اپنا کوئی جواز بھی تراش لیتے ہیں ۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ عام انسان کوئی سالم یا کامل نیک نہیں یا سالم یا کامل بد نہیں ۔ ہمیں ہر گھڑی یہ دیکھنا اور بہت بڑا فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم نیک ہونا یا رہنا چاہتے ہیں ۔ یا بد ہونا یا بد رہنا چاہتے ہیں ۔ تو یہ بات تو واضح ہے کہ ہر انسان مسلسل یا یوں کہ لیں کہ مستقلاً نیک یا بد بننے کے عمل میں رہتا ہے ۔ جیسا کہ نیکی یا بدی کا تعلق بنیادی طور پر ہمارے اعمال و افعال سے ہے اور یہ ہمارے اعمال اور افعال ہی ہیں جو ہمیں نیک یا بد بناتے ہیں ۔ اور جیسا کہ اوپر بھی اشارہ کیا گیا کہ اس میں اعمال و افعال کے نتائج بھی شامل ہوتے ہیں، تاہم اس بیچ بہت سی پیچیدگیاں آ الجھتی ہیں اور اسی لیے بہت دور رس نتائج کو اس میں شامل کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

مجھے یاد ہے کہ وجودی فلسفی ژاں پال سارترے نے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ اگر دنیا میں کہیں کوئی شخص قتل ہوتا ہے تو اس کی ذمے تمام انسانوں پر آتی ہے ۔ مثلاً اگر معمر قذافی کے ہاتھوں بہت سے اشخاص اپنی زندگیاں کھو بیٹھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذمےداری مجھ اور آپ سمیت ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔ یا اس کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ دوسرے جنگِ عظیم میں کسی جگہ اتحادیوں یا ناتسیوں کی فوج تعینات تھی وہاں دوسرے فریق نے کوئی بم پھینکا اور وہ بم کہیں جھاڑ جھنکاڑ میں یا زمین تلے دبا رہ گیا ۔ اور کافی عرصے بعد وہ اس وقت پھٹ گیا جب وہاں کچھ عام لوگ کھیتی باڑی سے متعلق کوئی کام کر رہے تھے، تو اتحادی یا ناتسی افواج پر ان ہلاکتوں کی کتنی ذمےداری عائد ہوتی ہے ۔

اگرچہ اس طرح کے حادثات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، لیکن کبھی ذمےداری کے تعین کا مسئلہ سامنے نہیں آیا ۔ جبکہ ایک اور طرح کے واقعات کے ضمن میں ذمےداری کا تعین کیا گیا ہے، اور ہرجانے کی ادائیگی بھی سامنے آئی ہے ۔ جیسا کہ جاپان پر قبضے کے دوارن جن عورتوں کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا گیا، حالیہ طور پر ان کو انصاف مہیا کیا گیا ۔

تو یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے اعمال اور افعال کے نتائج کا معاملہ ہر انفرادی معاملے کے حوالے سے ہی زیر ِ بحث آ سکتا ہے ۔ ہم ان اپنے نیک یا بد کاموں کے نتائج سے بہت زیادہ واقف نہیں ہوتے یا نہیں ہو سکتے ۔ اور یہ کہنے سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اپنے نیک یا بد کاموں کے تمام نتائج کے علم کے حامل نہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ قانون بھی بہت دور رس نتائج کی بنیاد پر جرم کا تعین نہیں کرتا ۔

اپنی بات کی طرف آتے ہیں ۔ کم از کم سیاسی فسلفے کے میدان میں ہمیں اس سوال کے دامن چھڑا لینا چاہیے ۔ یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ انسان، سوچ سمجھ کر نیک یا بد دونوں کام کر سکتا ہے ۔ اصل میں ہم جانتے ہیں کہ ہر آدمی ہر کام کر سکتا ہے، جسمانی معذوری ایک رکاوٹ ہو سکتی ہے، لیکن اسے بھی عبور کیا جا سکتا ہے ۔ مراد یہ کہ ہر آدمی میں نیک یا بد کام کرنے کی فکر، اور قدرت و استطاعت موجود ہوتی ہے ۔ اور وہ اپنے لیے کیا طے کرتا ہے اور معمولاً وہ کیا کرتا ہے یہی چیز اسے نیک یا بد بناتی ہے ۔ اور پھر جیسا کہ کہا جاتا ہے یہی معمول اس کی  عادت بن جاتے ہیں ۔ لیکن میرا اصرار یہ ہے کہ فطرت نہیں ۔ کیونکہ ہر انسان کے سامنے نیک یا بد بننے کا انتخاب ہر وقت موجود ہوتا ہے اور قدرت و استطاعت بھی ۔

اس بات سے جڑے ہوئے ایک اور معاملے پر کچھ کہنا ضروری ہے ۔ فرد کو کبھی باہر سے ایماندار نہیں بنایا جا سکتا ۔ ہاں، اسے انسیپیریشن دی جا سکتی ہے ۔ اس کی تعلیم کی جا سکتی ہے، وہ بھی اس کی مرضی سے ۔ اور مثال کے ذریعے اسے متاثر کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن زور زبردستی کے ذریعے کبھی اسے نیک یا بد نہیں بنایا جا سکتا ۔ جینرل ضیا کے دور میں ایسا کرنے کی کوشش کی گئی اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئے جو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ۔

بہر حال، انسان نیک ہے بد، اس سوال کے غلط ہونے کی طرف ایک بہت اہم جدید فلسفی (جدید ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فلسفے کہ کلاسیکی روایت سے بھی وابستہ تھے) کارل پاپر نے توجہ دلائی ہے ۔

کارل پاپر نے قرار دیا کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ کسے حکمران ہونا چاہیے، یا یوں کہہ لیں کہ حکمرانی کا حق کس کے پاس ہونا چاہیے ۔ جیسا کہ افلا طون کا کہنا تھا کہ فلسفیوں کو حکمرانی کرنی چاہیے کیونکہ وہ سب سے زیادہ دانا اور عقلمند ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس بات کوبڑی آسانی سے مسترد کیا جا سکتا ہے کہ ضروری نہیں کہ صرف فلسفی ہی دانا اور عقلمند ہوں، معاشرے کے دوسرے افراد بھی دانا اور عقلمند ہو سکتے ہیں ۔

تھوڑا سا آگے چلتے ہیں ۔ کیونکہ ایک سوال ہی غلط اٹھا لیا گیا تھا، لہٰذا، اب اسی سوال پر بحث جاری رہی اور اسی کا جواب دینے کی کوشش ہوتی رہی ۔ کارل مارکس تک آتے آتے حکمرانی کا حق مزدوروں یا پرولتاریہ کے پاس آ چکا تھا ۔ اور بیسویں صدی کے اوائل میں روس میں برپا ہونے والے بالشویک انقلاب نے اس پر عمل بھی کر کے دکھا دیا ۔

قطع نظر اس بات سے کہ پرولتاریہ کی حکمرانی کے نتائج کیا نکلے، یا یہ تنقید بھی کی گئی کہ یہ اصلاً پرولتاریہ کی حکومت تھی ہی نہیں، بلکہ یہ تو کمیونسٹ پارٹی کی یا کمیونسٹ پارٹی کی بیورکریسی کی حکومت تھی، بہر حال اتنا ضرور ہوا کہ یہ مغالطہ کہ مزدوروں کو حکمرانی کا حق ہے رو بہ عمل آ کر اپنی اہمیت اور افادیت کھو بیٹھا ۔ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دلائل غلط قرار پا کر بھی کبھی فنا نہیں ہوتے، کیونکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں آج بھی موجود ہیں اور پرولتاریہ کی حکمرانی کا پرچار کر رہی ہیں ۔

اس سے متعلق ایک اور مغالط بر صغیر میں بھی پیدا ہوا ۔ علامہ مشرقی نے حکمرانی کا یہ متنازعہ حق سائنسدانوں کو تفویض کیا ۔

خیر یہ بحث تو چلتی رہے گی، اوپر اس کی طرف اشارہ کرنے سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ کسی فرد، یا کسی گروپ، یا کسی طبقے، یا کسی سیکشن، یا کسی اخلاقی قدر یا خوبی یا خصوصیت کے حامل فرد، یا گروہ، کو حکمرانی کا حق دینا ایک سیاسی مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ مراد یہ کہ بظاہر یہ بات بہت درست معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً جب گہری نظر سے جانچا جائے تو غلط قرار پا جاتی ہے ۔

یہاں تھوڑا سا رجوع لارڈ ایکٹن سے لانا ضروری ہے ۔ ان کا ایک قول اکثر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے لفظ ملاحظہ کیجیے:

“All power tends to corrupt; absolute power corrupts absolutely.”

یہ تاریخ اور انسانیت کا سبق ہے ۔ سو آپ اِس کو یا اُس کو، کسی کو بھی حکمران بنا کر دیکھ لیں، نتیجہ اختیار کے ملتے ہی کرپشن کی صورت میں نکلے گا ۔ ہاں، مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ مثتثنیات موجود ہوتی ہیں ۔ یقیناً ایماندار بلکہ بہت ایماندار فرد موجود ہوتے ہیں ۔ موجود ہیں ۔ حتٰی کہ پاکستانی معاشرے میں بھی موجود ہیں ۔

مگر یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے ۔ مثلاً اس بات کا تعین کیسے کیا جائے گا کہ کون ایماندار ہے اور کون نہیں ۔ پھر یہ کہ جو ایماندار ہے اس کی تلاش کیسے کی جائے گی ۔ اور پھر اس چیز کی ضمانت کیسے دی جائے گی کہ ایک ایماندار شخص جب اسے اختیار مل جائے گا وہ تب بھی ایماندار رہے گا ۔ جیسے کہ ایمانداری کے دعوے دار عمران خان کی مثال ہی لے لیں ۔ وہ خود بھی اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیاں بدعنوان ہیں اور ان کی پارٹی ایماندار پارٹی ہے ۔ فرض کر لیتے ہیں جیسا کہ کہا جا رہا ہے وہ اور ان کی پارٹی ایماندار ہیں ۔ درست! لیکن جب انھیں سیاسی اقتدار مل جائے گا کیا وہ تب بھی ایماندار رہیں گے، اس بات کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے یا کون دے گا ۔ (خالی خولی ضمانت دینے والے تو بہت آ جائیں گے ۔ اور اگر کوئی زر ِ ضمانت بھی ہوا تو وہ ضبط بھی کروا لیں گے، کیونکہ اس طرح کی ضمانت دینے کا کام ایک کاروبار بن جانے کا بہت امکان ہے ۔)

دلیل کی خاطر ایک بات کا اور جائزہ لیتے ہیں ۔ آئین میں ارکان ِ پارلیمینٹ کی اہلیت کی دفعات میں اسی طرح کی کچھ اخلاقی چیزیں داخل کر دی گئیں تھیں ۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ یہ کیسے طے کیا جائے کہ کون جھوٹا ہے کون سچا، کون ایماندار ہے کون ایماندار نہیں ۔ بالآخر سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ اگر جھوٹ اور بے ایمانی کے حوالے سے کسی کو عدالت کے ہاتھوں مجرم قرار دیا گیا ہے تو اسے جھوٹا اور بےایمان گرادانا جائے گا ۔

سو اب تو یہ ایک معیار بن گیا کہ کسے حکمران ہونا چاہیے ۔

لیکن اوپر جو ہم نے اتنی طویل بحث کی ہے انسان کے نیک یا بد ہونے کے بارے میں، کیا اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ صاف بات ہے کہ یہ ایک قانونی بات ہے کہ جسے عدالت نے جھوٹا اور بے ایمان قرار نہیں دیا وہ جھوٹا اور بے ایمان نہیں ۔ مگر یہ واضح رہے کہ یہ قانونی اور آئینی معاملات کے ضمن میں ہے ۔ اخلاق اور اخلاقیاتی میدان میں یہ سند کام نہیں دے گی، اور پاکستان میں تو بالکل نہیں جہاں اخلاقیات اپنی موت آپ مر چکی ہے، بلکہ قانون اور آئین اشرافیہ کے گھر کی لونڈیاں بنے ہوئے ہیں ۔

کارل پاپر کے مطابق جو سوال اہم ہے اور اٹھایا جانا چاہیے تھا وہ یہ ہے کہ حکمرانی کیسے کی جائے، یا یہ کہ ایک ایسا نظام کیسے وضع کیا جائے کہ اگر بد یا برا بھی حکمران بن جائے تو وہ بہت زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے ۔ تو بات اصل میں ہے ایک ایسے آئینی اور قانونی نظام کی جو بد اور برے حکمرانوں کو نقصان پہنچانے کے زیادہ مواقع فراہم نہ کرے ۔ جیسا کہ اس وقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر حمید ڈوگر والا سپریم کورٹ موجود ہوتا تو کیا خبر کیا قیامت برپا ہوتی ۔

مزید یہ کہ ایک بہتر آئینی اور قانونی نظام بذات ِ خود کافی نہیں ۔ اس کے کارگر اور قابل ِ عمل ہونے کے لیے با شعور شہریوں کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا اور بیدار سول سوسائیٹی بھی درکار ہے ۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے کہ کہا جا سکتا ہے کہ حکمرانی کسی کا سیاسی، معاشی، اخلاقی، اور روحانی حق نہیں ۔ سیاسی سے مراد ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا، جیسا کہ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ حکمرانی ان کا حق ہے؛ معاشی سے مراد یہ ہے کہ معاشی طور پر پسے ہوئے کسی طبقے کا، جیسا کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانی مزدورں یا پرولتاریہ یا ان کی نمائندہ کمیونسٹ پارٹی کا حق ہے؛ اخلاقی سے مراد یہ ہے کہ اخلاقی طور پر ایمانداری کے کسی دعوےدار فرد یا گروہ کا، جیسا کہ اس وقت عمران خان اور ان کی تحریک ِ انصاف کا دعویٰ ہے؛ اور، روحانی سے مراد یہ ہے کہ کسی روحانی حثیت کی بنا پر حکمرانی کا دعویٰ کرنا، جیسا کہ کچھ مذہبی و روحانی گروہ ایسا سمجھتے ہیں ۔ مزید یہ کہ حکمرانی کسی بھی اعتبار سے کسی کا حق نہیں ۔

یہ ایک آئینی اور قانونی حق ہے جو ایک آئین اور قانون سے اخذ ہوتا ہے ۔ اور اس حق کو جیتنے یا حاصل کرنے کے لیے اس آئینی اور قانونی کسوٹی پر پورا اترنا پڑتا ہے ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکمرانی کا حق اصل میں افراد سے مینڈیٹ سے اخذ ہوتا ہے ۔ کسی ملک کے شہری واضح طور پر آئین میں درج شرائط کے تحت کسی پارٹی کو یہ حق یا اختیار محدود عرصے کے لیے دیتے ہیں ۔ اور اس حق اور اختیار کو شہریوں کے اعتماد سے ہی جیتا اور حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

عمران خان اور ان کی تحریک ِ انصاف کو حکمرانی کا پانچ برس کے لیے حکمرانی کا حق اور اختیار حاصل کرنے لیے ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹ کر شہریوں کو گمراہ کرنے کے بجائے پاکستان کے شہریوں کا اعتماد جیتنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

This entry was posted in: Uncategorized
Tagged with: ,

by

Vision 21 is Pakistan based non-profit, non- party Socio-Political organisation. We work through research and advocacy for developing and improving Human Capital, by focusing on Poverty and Misery Alleviation, Rights Awareness, Human Dignity, Women empowerment and Justice as a right and obligation. We act to promote and actively seek Human well-being and happiness by working side by side with the deprived and have-nots.

Leave a comment